ساحر لدھیانوی: ایک منفرد شاعر

تحریر : محمد ارشد لئیق


تعارف: ساحرلدھیانہ کے اک جاگیردار گھرانے میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے اور ان کا نام عبدالحئی رکھا گیا۔والدین میں علیحدگی کے باعث ان کی پرورش ننہال میں ہوئی۔ یہیں انھیں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور میٹرک میں پہنچتے پہنچتے وہ شعر کہنے لگے۔ 1939ء میں انٹر کرنے کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا۔ اسی زمانہ میں ان کا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا اور وہ کمیونسٹ تحریک کی طرف راغب ہو گئے۔ بی اے کے آخری سال میں اپنی ہم جماعت پر عاشق ہوئے اور کالج سے نکالے گئے۔ کالج کی فضا نے انہیں ایک خوبصورت رومانی شاعر بنا دیا۔1943ء میں ساحر نے لاہور کو مسکن بنا لیا جہاں وہ دیال سنگھ کالج میں طلباء یونین کے صدربن گئے۔بڑے ہوئے تو شہرہ آفاق جرائد کی ادارت سنبھال لی۔ ’’ادب لطیف‘، ’’شاہکار‘‘ اور ’’سویرا‘‘ انہی کے لگائے ہوئے پودے ہیں، یہ اب بڑا ادبی حوالہ بن چکے ہیں۔

 ان کا پہلا مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ 1944 میں شائع ہوا۔1949 ء میں وہ لاہور سے واپس بمبئی چلے گئے۔ یہیں کوٹھی بنائی، جس کا نام اپنے مجموعہ کلام ’’پرچھائیاں‘‘ کے نام پر رکھا۔آخری سانس بھی اسی کوٹھی میں لی۔ان کی ادبی خدما ت کے اعتراف میں انھیں 1971ء میں ’’پدم شری‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ 1972ء میں مہاراشٹر حکومت نے انھیں ’’جسٹس آف پیس‘‘ایوارڈ دیا۔1973ء میں ’’آو کہ کوئی خواب بْنیں‘‘ پر انہیں’’سویت لینڈ نہرو ایوارڈ‘‘ اور ’’مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ ان کی نظموں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ 8مارچ 2013ء کو ان کی خدمات کے اعتراف میں محکمہ ڈاک نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ 1980ء میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔

 

 برصغیر پاک و ہند میں متعدد شعراء ایسے گزرے ہیں جو نہ صرف غزل اور نظم میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے فلمی نغمہ نگاری میں بھی وہ کمالات دکھائے کہ اہل ادب عش عش کر اٹھے۔ایسے شعراء کی فہرست میں ایک نام ساحر لدھیانوی کا بھی ہے۔ لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے زمانے کے حوادث کو آشکارا کرنے والی شاعری پر مشتمل اپنا پہلا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ مکمل کیا۔ فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کی بحر میں لکھی گئی مشہور زمانہ نظم ’’آواز آدم‘‘ بھی انہوں نے یہیں شائع کی جس کی گونج سرکاری ایوانوں میں بھی سنی گئی، کہتے ہیں۔

دبے گی کب تک آواز آدم

ہم بھی دیکھیں گے

رہیںگے کب تلک جذبات برہم

ہم بھی دیکھیں گے

 ان کی ساحرانہ شاعری حیران کر دینے والی تھی، وہ برصغیر کے ترقی پسند شعراء کی صف میں کم عمر بھی تھے اور نمایاں بھی، جذبات کی شدت ان کی شاعری کی پہچان ہے۔ دھیما لہجہ شناخت ہے، وہ تو اپنے اندر کی دنیا میں گم رہ کر باہر کی دنیا کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، دنیاوی معیارات سے تنگ بلکہ باغی تھے، ملاحظہ ہو۔

دنیا کی نگاہوں میں برا کیا، بھلا کیا

یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تواچھا

جھوٹ تو قاتل ٹھہرا، اس کا کیا

سچ نے بھی انسان کا خون بہایا ہے 

وہ کبھی کبھار دنیا سے اس قدر مایوس ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی مل جانے کی خوشی سے ماوراء نظر آتے ہیں، کیونکہ چہار سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، ہر انسان کسی نہ کسی روگ کے ساتھ جی رہا ہے، پوری دنیا کا یہی چلن ہے۔ کہتے ہیں،

ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی

نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی

یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہاں اک کھلونا ہے انسان کی ہستی

یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی

’’تلخیاں‘‘ کا تیسرا ایڈیشن زیر طبع تھا کہ انڈیا میں مسلم کش فسادات شروع ہو گئے۔ خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں، شاعری کی فکر کس کو تھی۔جس سے انڈیا میں نہ صرف اس ایک مجموعہ کلام کی اشاعت متاثر ہوئی بلکہ علم و ادب کی تمام شمعیں ایک ایک کر کے بجھنے لگیں۔ ساحر خود کہتے ہیں، ’’اس سے وہ تما م قدریں خطرے میں پڑ گئیں جن سے ادب، آرٹ اورتہذیب کے سر چشمے پھوٹتے تھے۔ حالات ادب اور ادیب، دونوں کیلئے مخد وش ہیں۔ کوئی دوسری کتاب آپ تک اسی وقت پہنچ سکے گی جب ترقی اور انقلاب کی طاقتیں رجعت پسند طاقتوںپر اس حد تک قابو پا لیں گی کہ موجودہ کشت و خون کا ہنگامہ رک جائے اور تہذیبی زندگی کو از سر نو ترتیب دینے کے امکانات فراہم ہوں‘‘۔

دیکھا ہے زندگی کوکچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیںعجیب سے

ان کے نزدیک زندگی سے بڑی حقیقت کوئی نہیں، اس میں خوابوں کی کوئی حیثیت ہے نہ خوابوں میں رہنے والوں کا کوئی مقام، وہ کہتے ہیں، کام، کام اور کام۔ ان کی شاعری میںخوابوں میں جینے والی قوموں کیلئے محکومی کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ نظم ’’شہزادے‘‘پڑھ لیجئے،

ذہن میں اجداد کے قصے لے کر

اپنے تاریک گھروندوں کے خلاء میں کھو جائو

مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جائو

ابر پارو پہ چلو، چاند ستاروں پہ اڑو

لہٰذایہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اشعار کے بارے میں ان کا نکتہ نظرسمجھنے کی ضرورت ہے۔  وہ ایک ایک شعر کے فنی لوازمات اور جمالیاتی پہلو کے قائل ہیں لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا مخاطب پڑھا لکھا،امیر طبقہ ہی نہیں ہے۔ وہ مزدوروں اور کسانوں سے بھی مخاطب ہیں۔   وہ کہتے تھے ’’سماج کے اس طبقے کو حکمران جماعتوں نے علم،آرٹ اور ادب کے سرچشموں سے بہت دورکر رکھا ہے۔ اس طبقے تک پہنچنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی بات سادہ زبان میں کہیں‘‘۔وہ کتنی بڑی بات سادہ سے لہجے میں کہہ جاتے ہیں، جیسا کہ یہ پیغام!

اے رہبر ملک و قوم ذرا

آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا

کچھ ہم بھی سنیں ہم کو بھی بتا

یہ کس کا لہو ہے کون مرا

علامہ اقبالؒ کی طرح وہ بھی بڑی طاقتوں کے جبر سے نالاں تھے۔کہتے ہیں،

تم ہی تجویز صلح لاتے ہو

تم ہی سامان جنگ بانٹتے ہو

تم ہی کرتے ہو قتل کا ماتم

تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو

امرتا پریتم کے ساتھ ان کے معاشقے کا خوب شہرہ رہا۔امرتا کے لکھے گئے خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ امرتا ساحر کی محبت میں گرفتار تھیں۔ وہ ساحر کو ’’میرا شاعر‘‘، ’’میرا محبوب‘‘،’’میراخدا‘‘ اور ’’میرا دیوتا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔دوسری جانب ساحر اپنے اور امرتا کے ایک ساتھ مستقبل کے بارے میں اتنا پراعتماد نہیں تھے۔ ان کی شاعری میں محبت کی حیثیت ثانوی تھی پھر بھی امرتا اور ان دونوں کی نامکمل محبت نے انہیں فلم ’’دوج کا چاند‘‘ (1964ء) کیلئے ’’محفل سے اٹھ جانے والو‘‘لکھنے پر مجبور کر دیا۔

محفل سے اٹھ جانے والو

تم لوگوں پر کیا الزام

تم آباد گھروں کے واسی

میں آوارہ اور بدنام

 وہ آج بھی اپنے پیغام کی صورت میں زندہ ہیں،کیا ہم ان کے یہ اشعار بھول گئے،

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے 

ان کی شہرہ آفاق نظم ’’تاج محل‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی 

تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی 

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی 

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں 

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی 

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا 

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا 

ساحر لدھیانوی کی گیت نگاری

ساحر لدھیانوی کی فلمی گیت نگاری کی بات کریں تو وہ انہوں نے 1950میں شروع کی۔ گورودت نے انہیں اپنی فلم ’’بازی‘‘ کے نغمات لکھنے کی دعوت دی۔ ساحر نے ایسے دلکش گیت لکھے کہ لوگوں پر سحر طاری ہو گیا۔ اس کے بعد پھر ساحر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے ساحر لدھیانوی کی یادگار فلم ’’پیاسا‘‘ کے بھی گیت لکھے۔1958 میں ریلیز ہونے ولای فلم ’’پھر صبح ہو گی‘‘ کے نغمات بھی ساحر لدھیانوی کے تھے۔ یہ رمیش سہگل کی فلم تھی۔ خاص طور پر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’نیل کمل، دیوداس، ممبئی کا بابو، ہم دونوں، نیا دور، وقت، ترشول، تاج محل، داغ، کبھی کبھی، داستان اور کئی دوسری فلموں کے گیت لکھے۔ ان کی فلموں کی اکثریت نے باکس آفس پر بہت کامیابی حاصل کی۔ ان کے گیتوں کی موسیقی ایس ڈی برمن، آرڈی برمن، خیام، روشن، شنکر جے کشن اور روشن نے مرتب کی۔ انہیں کئی ایوارڈ ملے جن میں فلم فیئرایوارڈ بھی شامل ہے۔

ساحر لدھیانوی کو نہ صرف اپنی غزلوں اور نظموں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلکہ ان کے عدیم النظیر فلمی گیت بھی ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ بڑے بڑے انعامات پانے کے بعد ان کی کیفیت کچھ یوں تھی،

میں پل دو پل کا شاعر ہوں،

پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل مری ہستی ہے،

پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آ کر چلے گئے

وہ بھی اک پل کا قصہ تھے، 

میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

 

ساحر لدھیانوی کے یادگار نغمات 

1:تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیربنا لے(بازی)

2:جسے تو قبول کر لے وہ ادا کہاں سے لائوں(دیوداس)

3:دیوانہ مستانہ ہوا دل(ممبئی کا بابو)

4:چل ری سجنی اب کیا سوچے(ممبئی کا بابو)

5:ابھی نہ جائو چھوڑ کر(ہم دونوں)

6:سارے جہاں سے اچھا(پھر صبح ہو گی)

7:جانے وہ کیسے لوگ تھے( پیاسا)

8:جانے کیا تو نے کہی(پیاسا)

9:جو وعدہ کیا وہ نبھانا (تاج محل)

10: کبھی کبھی میرے دل میں(کبھی کبھی)

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭