انگور کھٹے ہیں ۔ ۔ ۔!

تحریر : اسد بخا ری


جنگل کے قریب بہنے والے دریا میں ایک چھوٹاسا کچھوا رہتا تھا ۔ماں باپ کے بچھڑ جانے کی وجہ سے وہ اکیلا رہ گیا تھا۔وہ جب دریا سے نکل کر کنارے پر بیٹھتا تو جنگل کو بڑی حسرت سے دیکھتا اور خودسے کہتا کہ وہ کسی دن جنگل میں سیر کرنے ضرور جائے گا۔

ایک دن چھوٹے کچھوے نے ارادہ کر ہی لیا کہ وہ جنگل میں جائے گا اور اُس نے جنگل کی طرف تیرنا شروع کر دیا۔ جنگل کے کنارے پہنچ کراُس نے دیکھا ہر طرف درخت ہی درخت ہیں ۔وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس طرف جائے۔ اُسے اپنے اماں ابا کی باتیں یاد آرہی تھیں کہ جنگل میں بہت بڑے بڑے جانور رہتے ہیں، جو کسی کو بھی کھا جاتے ہیں ۔

کچھوے نے کہا ماں باپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، مجھے جنگل میں نہیں جانا چاہیے ۔ وہ واپس جانے کیلئے مڑنے لگا تو پھر رُک گیا۔ خود سے کہنے لگا !اتنی نزدیک آکر واپس جانا عقلمندی نہیں۔ جلدی جلدی جنگل کی سیر کر کے شام ہونے سے پہلے واپس چلا جائوں گا۔یہ سوچ کر وہ جنگل کی طرف چل پڑا۔کچھ ہی دیر میں کچھوا جنگل میں کھڑا تھا ۔

وہ حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اس نے ایک بھالو کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ بیچارہ کہیں بھاگ تو سکتا نہیںتھا ،ا س نے اپنی گردن خول کے اندر کر لی۔ بھالو نے کچھوے کو دیکھا تو رُک گیا اور اُسے اُلٹ پلٹ کر کے دیکھنے لگا۔بھالو کو کچھ جلدی تھی وہ وہاں سے چلا گیا۔چھوٹے کچھوے نے ڈرتے ڈرتے گردن باہرنکالی تو وہاں کوئی نہیں تھا اُس نے سُکھ کا سانس لیا اور آگے کی طرف چل پڑا۔

کچھ دور ہی گیا تھا کہ اُسے ایک سانپ ملا، اُس نے کہا ارئے تم کچھوے میاںہو نہ، میں نے تمہیں کئی بار دریا میں دیکھا ہے، تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ ۔کچھوے نے ڈرتے ڈرتے کہا میں جنگل کی سیر کرنے آیا ہوں۔ سانپ نے کہاارئے عقل کے اندھے ابھی تو ہے ہی کتنا ،کسی بھی بڑے جانور کے پائوں کے نیچے آگیا تو بے موت مارا جائے گا۔ چچا ہاتھی کا نام سنا ہے کبھی، ابھی تو تم نے زرافہ نہیں دیکھا۔تم اگر ان سے بچ بھی گئے تو تمہیں شیر نہیں چھوڑے گا۔بہتر تو یہی ہے کہ تم یہاں ہی سے واپس چلے جائو۔

 کچھوا ڈر گیا اور اُس نے جنگل سے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور جیسے ہی جانے کیلئے مڑا تو اُس کے پائوں میں کانٹا چبھ گیا۔ جس کی وجہ سے اس کا چلنا مشکل ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا ایسے تو وہ جنگل سے باہر شام تک نہیں جا پائے گا۔ اس نے سوچااگر کوئی اُس کا کانٹا نکال دے تو وہ یہاں سے جا سکتا ہے توکچھوا مدد کیلئے دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اُس کی نظر ایک درخت کے نیچے سوئی ہوئی لومڑی پر پڑی ۔وہ بڑی مشکل سے لومڑی کے پاس گیا اور ہمت کر کے اسے آواز دی ’’لومڑی آنٹی،لومڑی آنٹی‘‘۔

لومڑی نے آنکھیں کھولیں اور غصے سے کچھوے کی طرف دیکھا اور بولی کیا کہا، آنٹی؟ میں تجھے آنٹی لگتی ہوں کیا؟کچھوا جو بہت تکلیف میں تھا اُس نے فوراً لومڑی سے معذرت کی۔ لومڑی نے کچھوے کو غور سے دیکھا اور کہاتم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کچھوے نے کہا میں غلطی سے جنگل میں آگیا ہوں، اب مجھے واپس جانا ہے اورمجھے تمہاری مدد چاہیے۔ میرے پائوں میں کانٹا چبھ گیا ہے، اگر تم نکال دو تو میں اِس جنگل سے فوراً چلا جائوں گااور ساری زندگی تمہارااحسان مند رہوں گا۔

چالاک لومڑی کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا، اُس نے کہا بیشک میں تمہارے پائوں سے کانٹا نکال دوں گی پر میری ایک شرط ہے؟ کچھوے نے کہا،میں تمہاری ہر شرط ماننے کیلئے تیار ہوںبس تم میرا کانٹا نکال دو۔ لومڑی نے جلدی سے کچھوے کے پائوں سے کانٹا نکال دیا اور کہااب تم میری شرط پوری کرنے کیلئے تیار ہو؟ کچھوے نے کہا ہاںبتائو کیا کرنا ہے مجھے؟

لومڑی کہتی ہے تمہیں ہر روز میرے لئے باغ سے انگور لے کر آنے ہوں گے۔کچھوے نے پوچھاکیا ہر روز؟ ایسے تو میں واپس دریا میں نہیں جا سکوں گا۔لومڑی نے کہا تم نے وعدہ کیا ہے ، اب اسے پورا کرو، انگوروں کا باغ اِدھر ساتھ ہی ہے۔کچھوا بیچارہ لنگڑاتا ہوا باغ کی طرف چلا گیا۔ اُس نے لومڑی کیلئے انگور توڑے اور واپس جنگل میں آکر لومڑی کوپیش کئے۔ لومڑی نے بڑے مزے سے سارے انگور کھا گئی۔

اب روز کچھوا لومڑی کیلئے باغ سے انگور لے کر آتا اور لومڑی مزے لے لے کر کھاتی اور سو جاتی ۔کچھوے کا یہاں دِل نہیں لگ رہا تھا، وہ اُداس ہو گیا، اُسے اپنے دوست یاد آنے لگے۔ اُسے لومڑی پر غصہ بھی آرہا تھا کہ اُس نے بڑی چالاکی سے اُس کی مجبوری کا فائدہ اُٹھایا ہے۔ اب وہ پچھتا رہا تھا کہ اُس کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔

ایک دن جب کچھوا لومڑی کیلئے انگور لایا تو لومڑی نے کھاتے ہی کہا آج انگور کھٹے ہیں۔ کچھوے کو یہ سن کر بہت غصہ آیا ۔کچھوے نے ایک انگور میں کانٹا لگا کر کہا یہ والا انگور بہت میٹھا ہے یہ کھا کر دیکھوں۔لومڑی نے جلدی سے وہ انگور پکڑ کر منہ میں ڈال لیا اور کانٹا اُس کے حلق میں جا کر پھنس گیا۔ وہ چیخنے لگی ہائے ہائے کانٹاپھنس گیا۔دوست میری مدد کرو، میرے گلے سے کانٹا نکالو۔

کچھوے نے کہا بیشک میں تمہارا کانٹا نکال دوں گا پر میر ی بھی ایک شرط ہے۔لومڑی نے کہامجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔بس تم جلدی سے کانٹا نکال دو، میں بہت تکلیف میں ہوں۔ کچھوے نے لومڑی کا کانٹا نکال دیا اور کہا اب اپنا وعدہ پورا کرو۔تم روز میرے لئے دریا سے مچھلیاں پکڑ کر لائو گی۔لومڑی نے یہ سنا تو وہاں سے بھاگ گئی ۔

کچھوا وہاں کھڑا ہنسنے لگا اورکہنے لگا میں نے کونسا لومڑی سے کوئی کام کروانا تھا، مجھے تو اِس سے آزادی چاہیے تھی تاکہ میں واپس دریا میں جا سکوں۔اور کچھوا مُسکراتے ہوئے دریا کی طرف چل پڑا!

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔