اردوادب میں جدید تنقیدی رویے

تحریر : عامر سہیل


جدید تنقید سے میری مراد ساختیات، پس ساختیات، مابعد جدیدیت، ڈی کنسٹرکشن اور ادبی تھیوری کے عمومی مظاہر ہیں۔مغرب میں ان مسائل کی زمانی مدت اندازاً ایک صدی کو محیط ہے۔

ہمارے ہاں تقریباً دو دہائیوں سے زائد ان پر کسی نہ کسی حوالے سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اُردو میں اس کے ابتدائی بنیاد گزاروں میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر فہیم اعظمی، قمر جمیل اور ڈاکٹر احمد سہیل کا ذکر لازمی آتا ہے۔ ان کے بعد نئی نسل کے نقادوں نے اپنے اپنے فہم کے مطابق اس سلسلے کو جاری رکھا اور آج ہمارے پاس پاک و ہند کے ایسے نام موجود ہیں جن کے مقالات اور کتابوں نے ان جدید تنقیدی رویوں کو مقدور بھر عام کیا ہے۔ مغرب میں ان تمام مظاہر کا اوّلین حوالہ لسانیات، بشریات، فلسفہ، نفسیات، اساطیر اور ثقافتی مطالعات کی ذیل میں آتا ہے تاہم معروف فرانسیسی نقاد رولاں بارت نے ادب میں ساختیاتی تنقید کو متعارف کرایا۔ اس کے بعد سے اب تک ادبی فن پاروں کو انھی مذکور عوامل کی روشنی میں پرکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ جدید تنقید نے متن کو خود مختار اور خود مکتفی خیال کرتے ہوئے اس کے تمام متعلقات سے انکار کیا ہے۔’’قاری اساس تنقید‘‘ نے متن کو مادر پدر آزاد کر کے ایسی ایسی تنقیدی گلکاریاں کی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

 اس جدید تنقید کی جمالیاتی اور فکری سطح اتنی پست ہے کہ اچھا بھلا فن پارہ لغت اور تھیسارس کا بھٹیار خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ مغرب میں بے شک اس تنقیدی ادا کی بہت مانگ ہو گی لیکن ہمیں شاید اس کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ ہمارے اور اُن کے تناظرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔مغرب میں تو اور بھی بے شمار رویے اور اشیا مستعمل ہیں مگر ہمارے تناظرات میں اُن کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ تمام مغربی تعقلات ایک خاص پس منظر میں ہی اپنی مطابقت پذیری کے جوہر دکھا سکتے ہیں اُن کا اطلاق ہر من چاہے ماحول میں کرنا مضحکہ خیز نتائج کا باعث بنتا ہے ۔ہماری اردو تنقید میں اسی وقت یہی صورت حال بنی ہوئی ہے۔اس نوع کی قاری اساس تنقید مغرب کو مبارک ہو۔یہ تنقید پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے فن پارے میں شامل اعلیٰ تخیل کا پوسٹ مارٹم کر دیا گیا ہے۔ یہ تنقید ایک اچھے بھلے فن پارے کو سطحی تجربے کا اشاریہ بنا ڈالتی ہے اور بظاہر یہ تاثر بھی دیتی ہے کہ اصل فن پارے کی کوئی فکری حیثیت یا معنویت نہیں بنتی۔ قاری اساس تنقید، قاری کو کسی تخلیق کے بارے میں گمراہ تو کر سکتی ہے اس کی تفہیم اور تحسین نہیں کر سکتی۔ جدید تنقید کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ تنقید کسی ادب کو ثروت مند نہیں بنا سکتی۔ غالب،میر،اقبال،ملٹن،شیکسپیئر اور گوئٹے جو عالمی سطح پر اب تک متاثر کرتے چلے آ رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن خوش نصیبوں کے دور میں اور پھر بہت بعد تک ساختیات اور قاری اساس تنقید ایجاد نہیں ہوئی تھی۔

جدید تنقید کا سب سے بڑا نقصان تخلیقی ادب کو پہنچ رہا ہے،اول تو ہمارے جدید نقادوں کو نظری مباحث سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ نظم و نثر کے تخلیقی سرمائے پر توجہ دے سکیں اور اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو اُن کی من پسند تاویلات اور تعبیرات سے سارا خواب ہی پریشان ہو جاتا ہے۔ اگر بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ہمارے ادب میں نئی تنقید لکھنے والے کسی تخلیقی ادب پارے پر بات کرنا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک علمیت کا واحد معیار یہی ہے کہ گلوبلائزیشن کے مختلف عناصر پر مغربی افکار کی کھتونی سجا کر دکھا دی جائے اور اُن پہلوئوں کو موضوع بنایا جائے جن کا رشتہ ادب کے ساتھ تو نہیں جوڑا جا سکتا البتہ اسی بہانے اپنی علمی شان دکھانے کا موقع تو نکالا جا سکتا ہے۔ اس وقت جدید اردو تنقید کے حوالے سے شائع ہونے والے مقالات اور کتابوں کی درج ذیل تین صورتیں بنتی ہیں۔

(1) مغرب کی دیگر زبانوں سے انگریزی زبان میں ہونے والے تراجم کو اُردو زبان میں منتقل کرنا( یہی اصلی کام تھا لیکن اس طرف دھیان نہ ہونے کے برابر ہے)

(2) انھی انگریزی متون کے چربے اور اپنی فہم کے مطابق ان کے تجزیات پیش کرنا

(3) انگریزی متون سے اخذ شدہ معلومات کو اپنا مال بنا کر متعارف کرانا جدید تنقید نے ہمیں دیا تو کچھ نہیں البتہ لیا بہت کچھ ہے۔ اگر ماضی کو سامنے رکھ کر اُردو ادب پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب کو بطور پروپیگنڈہ بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومتی سطح پر ہر صاحب اقتدار ادب کو اپنی سیاسی ضرورت کے تابع رکھتا تھا۔ایک مذہبی حاکم اور روشن خیال اور ترقی پسند حاکم کی سیاسی ترجیحات میں جو بُعد ہوتا ہے اسے جاننے کے لیے کسی افلاطونی فکر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی معاملہ عالمی سطح پر پہنچ کر اپنے انوکھے رنگ ڈھنگ دکھاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ کوئی عالمی ایجنڈا کسی خاص ملک کی فکری اور اقداری سرحدوں کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ادبیات کا سہارا بھی لے؟اس حوالے سے سوچا تو جا سکتا ہے۔اگر اس حوالے سے سوچنا ممکن ہے تو پھر کیا ایسا نہیں لگتا کہ جدید ثقافتی اور تنقیدی یلغار اور مطالعات کا ہمارے ہاں در آنے کا اصل مقصد مغرب کی بالا دستی کو ثابت کرنا اور اُردو والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا ہے؟

آج کل جدید تنقیدی اصطلاحات اور تکنیکوں کی مدد سے جس طرح تخلیقی ادب کی گھنائونی تشریحات،توضیحات اور تعبیرات کی جا رہی ہیں اسے دیکھ کر عام قاری تو ایک طرف اچھے اچھے تخلیق کار اس سوچ میں گم ہو جاتے ہیں کہ اس ساختیاتی مطالعے میں ادب بذات خود کدھر ہے؟ جدید تنقید کا کام اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ تنقید کے نام پر یا تو انشائیہ نگاری کرے (انشائیے کا بنیادی وصف ہی کسی معمولی شے کو غیر معمولی اور غیر معمولی شے کو معمولی بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے) یا اپنے من پسند اور پہلے سے طے شدہ اور تیار شدہ نظریات کے ٹوٹے زیر نظر تخلیق پر منطق کرے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔