ظہیر کاشمیری:ہمہ جہت شخصیت
’’ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب…‘‘اردو شاعری، تنقید، صحافت اور تحقیق کے میدان میں نقش نمایاں
تعارف:
اردو کے ممتاز شاعر ظہیر کاشمیری کا اصل نام پیرزادہ دستگیر ظہیر تھا۔ 21 اگست 1919 کو امرتسر (بھارت)میں پیدا ہوئے، اس لحاظ سے انہیں امرتسری کشمیری بھی کہا جاتا تھا۔بی اے کرنے کے بعد انہوں نے ایم اے انگریزی ادبیات میں داخلہ لیا لیکن اسے مکمل نہ کر سکے۔ ظہیر کاشمیری زمانہ طالب علمی میں طلبا سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی و ادبی مباحثوں میں بھی حصہ لیتے رہے اور اس حوالے سے کئی انعامات حاصل کئے۔ انہوں نے علمی و ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز صحافت سے کیا۔ وہ مختلف اخبارات کے مدیر رہے اور پھر کئی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔
ظہیر کاشمیری قیام پاکستان سے قبل فلمی صنعت کے ساتھ وابستہ ہونے کیلئے لاہور آ گئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور ہدایت کاری بھی کی۔ فلم ’’تین پھول‘‘ کے مصنف و ہدایتکار خود تھے۔ ان کا اصل میدان ادب اور مزدوروں کے حقوق کیلئے جدوجہد تھا اور وہ طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ ہمیشہ اپنے قلم کو انسانی حقوق اور پسے ہوئے طبقات کیلئے استعمال کیا۔ان کی تصانیف میں ’’عظمتِ آدم(مجموعۂ کلام) ، چراغ آخر شب، رقص جنوں، اوراق تصور (مجموعۂ کلام) آدمی نامہ اور دوسری نظمیں، جائے آگاہی( مجموعۂ مضامین)، ادب کے مادی نظریے( مجموعہ مضامین)، عشق و انقلاب( کلیات) شامل ہیں۔ 12 دسمبر 1994ء کو لاہور میں وفات پائی اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔حکومت پاکستان نے انہیں وفات کے بعد ’’صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ عطا کیا۔
اردو ادب پر ترقی پسند تحریک نے گہرے اثرات چھوڑے، اگر کوئی اس حقیقت سے انکار کرتا ہے تو اس کے پاس ٹھوس دلائل نہیں ہوں گے۔ اردو ادب میں ترقی سند کی پرچھائیاں ان شاعروں اور ادیبوں کی وجہ سے گہری ہوتی گئیں جن کا تعلق اس مکتبہ فکر سے تھا۔ شعرا میں فیض احمد فیض، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ جدید افسانہ نگاروں میں انور سجاد، سریندر پرکاش، بلراج منیرا، سمیع آہوجا، اورکئی اور نام لیے جا سکتے ہیں۔ جدید اردو شاعر میں ترقی پسندی کے حوالے سے جاوید شاہین، سلیم شاہد اور ایسے کئی دوسرے نام ہیں۔ اردو شاعری، تنقید، صحافت اور تحقیق کے میدان میں خالص ترقی پسندی کے نقوش ہمیں صرف ایک شخصیت میں ملتے ہیں جن کا نام تھا ظہیر کاشمیری۔
ظہیر کاشمیری شعرو ادب میں اپنے نظریۂ فن کے حوالے سے بہت واضح تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’عظمت آدم‘‘ میں شامل ’’میری زندگی، میرا فن‘‘ کے نام سے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں۔ ’’میٹرک سے میری شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس وقت تک میری زندگی کم و بیش ان تمام تلخیوں سے دو چار ہو چکی تھی۔ جن سے ایک نچلے درمیانہ طبقے کا فرد گریزکرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔ جہالت، مفلسی اور تشدد میرے ماضی کا اثاثہ تھے۔ جنہوں نے ذہن پر عکس انداز ہو کر موت، ہراس اور بداعتمادی کی صورت اختیار کر لی تھی۔ میرا سلیقہ اور شعور ایک غیر بیانی گھٹن محسوس کرتے تھے اور فرار کی تمام راہیں مسدود تھیں،ان حالات میں میں نے جب شعر کہنا شروع کئے، تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھے فرار کا راستہ مل گیا۔ میں نے خارجی ٹھوکوں سے بچنے کیلئے غنائی شاعری میں پناہ ڈھونڈلی اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے بچنے کیلئے اپنے گرد ’’بے کار‘‘ رومان کے دائرے بننا شروع کردیئے۔
’’اس وقت میرے خیالوں میں زندگی کی کوئی گہرائی یا پیچیدگی نہ تھی۔ میں ابھی زندگی اور کائنات کے عقلی تجربوں سے کوسوں دور تھا۔ میرے کچے جذبوں میں تفکر کی کمی تھی۔ اس لئے کہ تفکر سن رسیدگی اور مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ میں ہلکی ہلکی بحروں میں روایتی عشقیہ مضامین باندھتا اور انہیں مقامی مشاعروں میں جا کر تحط اللفظ سنا آتا۔
میرا ابتدائی فن اس طالب علم شاعری کا ذہنی عکس ہے۔ جو عام درمیانہ طبقہ میں پیدا ہوا، جس نے گھریلو تشدد کا تجربہ کیا، جسے گستاخی اور بغاوت سے بچنے کیلئے روایت اور منقولیت کے منتر یاد کرائے گئے، اور جو ماضی اور گرد و بیش کی المیہ کیفیت سے متاثر ہو کر غم جاناں میں لذت مرگ کو تلاش کرنے لگا۔
انہی دنوں ہندوستان کے گوشے گوشے میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی اکائیاں بننا شروع ہو گئیں۔ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ممبروں نے مجھے بتایا کہ اس نوزائیدہ انجمن کو چلانے والے بھی اپنے ہی لوگ تھے۔ چنانچہ میں جو مکمل طور پر ’ او ڈی پی‘ بن چکا تھا، سچائی کے کھوج میں ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر اس کا بھی ممبر بن گیا۔ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مقامی دائرہ مطالعہ سے میں مستقلاً عمرانی عائیلی اور سماجی مسائل کے متعلق تعلیم حاصل کرتا رہا، کانگرس کی تاریخ کو سمجھا، برطانوی سامراج کی نیچر سے واقفیت حاصل کی۔ اشتمالیوں کی عالمگیر جدوجہد پر لیکچر سنے، ٹریڈ یونینوں اور کسان سبھائوں کے انقلابی کارناموں سے واقف ہوا، اس خیال انگیز تعلیم نے مجھ میں خود اعتماد پیدا کردی، اور نامواقف حالات کو بدل دینے کا عزم بیدار کردیا۔ یوں میں نے پہلی بار زندگی کو زندہ حقیقت جاننا شروع کردیا۔
’’ترقی پسند ادیبوں میں رہتے ہوئے جب میں نے ان کے ادب پاروں کا جائزہ لیا۔ تو ان کا ماحصل بھی وہی تھا جو سٹوڈنٹس فیڈریشن کے دائرہ مطالعہ کی اکثر بحثوں کا ہوا کرتا تھا۔ یہاں وہ کر مجھے اپنی گزشتہ ادبی کاوشوں پر افسوس ہونے لگا۔ میں اکثر سوچنے لگا کہ میری گزشتہ شاعری جہالت کی پیداوار ہے۔وہ زندگی اور حقیقت زندگی سے بہت دور ہے۔ اس کا انسانوں کے زندہ مسائل سے کوئی بھی تعلق نہیں، چنانچہ میں نے آہستہ آہستہ نئے مطالعوں اور نظریوں کو ادبی سانچوں میں ڈھالنا شروع کردیا‘‘۔
ظہیر کاشمیری نے علمی و ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز صحافت سے کیا۔ وہ مختلف اخبارات کے مدیر رہے اور پھر کئی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔ انہوں نے بڑی خوبصورت شاعری کی۔ کچھ عرصے کیلئے وہ فلم والوں کیلئے لکھتے رہے۔کچھ فلموں کے گیت بھی لکھے اور کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ ان کی تصانیف میں ’’عظمتِ آدم (مجموعۂ کلام) تکجل، چراغ آخر شب، رقص جنوں، اوراق تصور( مجموعۂ کلام) آدمی نامہ اور دوسری نظمیں، جائے آگاہی( مجموعۂ مضامین)، ادب کے مادی نظریے( مجموعہ مضامین)، عشق و انقلاب( کلیات) شامل ہیں۔
ان کی شاعری کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ رومان اور انقلاب کے شاعر تھے لیکن وہ شعری طرز احساس کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلے اور انہیں نعرے باز نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے آغاز سے ہی اس سے وابستہ ہو گئے اور اس تحریک کے سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ مل کر اپنے ترقی پسندانہ خیالات میں اضافہ کرتے رہے۔ وہ وسیع النظر بھی تھے اور وسیع المطالعہ بھی۔ انہیں تاریخ، فلسفہ، ادبیات اور سیاست پر دسترس حاصل تھی۔عالم شباب میں وہ کئی ٹریڈ یونینز سے وابستہ رہے جس کی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ شاعر کے طور پر ان کا اسلوب نہایت متنوع اور اعلیٰ ہے اور ان کے خیالات و افکار سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ان کی شاعری میں قدیم و جدید اسالیب کا نہایت خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ظہیر کاشمیری ایک حقیقت پسند شاعر تھے اور ان کی زبان قابل فہم تھی۔
وہ ہمارے ان بڑے شعراء میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے الفاظ، نظریات اور خیالات سے نظم اور غزل کو برابر استحکام عطا کیا۔ ظہیر کاشمیری ایک طرف رومان پرور شاعر تھے تو دوسری طرف ان کے کلام میں جا بجا طبقاتی امتیاز کے حوالے سے بھی کئی اشعار ملتے ہیں اور وہ استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شاعر کو کبھی معروضی صورتحال سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اس کی شاعری میں عصری کرب کی جھلکیاں نظر آنی چاہئیں۔ اگر وہ ان سے ارادتاً پہلوتہی کرتا ہے تو پھر وہ یقیناً بد دیانتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے کچھ اشعار کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے ان کی شعری عظمت کا بآسانی تعین کیا جا سکتا ہے۔
آندھیاں آٹھیں فضائیں دورتک کجلا گئیں
اتفاقاً دو چراغوں کی لویں ٹکرا گئیں
اب اس سے بڑھ کے طلسم وصال کیا ہوگا
سمٹ گیا ہے زمانہ ترے بدن کی طرح
دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو
بانہیں پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو
منزلوں کی جستجو کا تذکرہ بے سود ہے
ڈھونڈنے نکلو تو اب اپنے ہی گھر ملتے نہیں
جو لوگ ترقی پسندوں پر الزام کرتے ہیں کہ وہ کسی اخلاقی نظام کو نہیں مانتے اور اخلاقیات کا لفظ ان کی لغت میں نہیں، ان کی تردید کرتے ہوئے ظہیر کاشمیری کہتے ہیں:
سیرت نہیں تو عارض اور خسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اب یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
اس غزل کو امانت علی خان نے اتنی خوبصورتی سے گایا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
ظہیر کاشمیری ایک دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ نوجوان ادب و سیاست پر ان کی فکر انگیز گفتگو بڑے انہماک سے سنتے تھے۔ ان کی علمیت کے سبھی معترف تھے۔ ان کی آواز بڑی گرج دار تھی اور وہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتے تھے۔
12دسمبر 1994ء کو ظہیر کاشمیری اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ گلستان ادب ان کے شعروں کی خوشبو سے ہمیشہ مہکتا رہے گا۔