سقوط ڈھاکہ سانحہ 16 دسمبرکے سیاسی و تاریخی اسباب
سیاسی مینڈیٹ اور اقلیتوں کی رائے کا احترام قومی سلامتی کا تقاضا یہ غیروں کی چالبازیوں سے زیادہ اپنوں کی بے التفاتی کی داستان ہے سازشوں کے تانے بانے بننے والا ازلی دشمن بھارت موقع کے انتظار میں تھا
سولہ دسمبر کی تاریخ اہل پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے کیونکہ اسی روز سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ یا بنگلہ دیش کا قیام محض اتنی سی بات نہیں کہ اس روز پاکستان کے ایک ٹکڑے میں مقیم افراد نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور اس روز ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر ابھر آیا بلکہ یہ سازشوں، الزامات اور خون سے تر ایک ایسی داستان ہے کہ اس کے بارے میں جتنا بھی غور و فکر کریں دکھ اور تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ غیروں کی چالبازیوں سے زیادہ اپنوں کی بے التفاتی کی داستان ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے پاک وطن کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی کیا قیمت ہوگی۔ انہوں نے دیوانہ وار نہ صرف یہ نعرہ لگایا بلکہ اس کی بھرپور قیمت بھی ادا کی۔ اپنی جان سے بھی، املاک سے بھی اور عزت و آبرو سے بھی، وہ سب اپنے ہی وطن میں اجنبی ٹھہرے۔ سقوط ڈھاکہ کو پانچ عشرے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب تک ہم یہ نہیں جان سکے کہ اصل میں یہ سازش کیا تھی۔ اس میں غیروں کا کیا کردار تھا اور اپنوں کی کیا کارگزاری تھی۔ آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟ اس بارے میں اب تک ہم بنیادی سوالات ہی ترتیب نہیں دے پائے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب وغریب پہلو یہ ہے کہ ملک اقلیتیں توڑتی ہیں، وہ اکثریت کی شکایت کرتی ہیں اور ملک سے الگ ہونے کیلئے کوشاں ہوتی ہیں، لیکن مشرقی پاکستان میں اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی حالانکہ یہ اکثریت برصغیر میں مسلمانوں کے مفادات کیلئے سب سے پہلے آواز بلند کرنے والی اور تحریکِ پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگا نے والی اکثریت تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ دلّی، لاہور، کراچی یا پشاور میں نہیں 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی تھی اوراس کے بانیوں میں بنگالی قائدین کی اکثریت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگال میں انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر کا احساس شدید تھا اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنگالی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند تھی۔ بنگالیوں کا یہ سیاسی شعور تحریکِ پاکستان میں پوری طرح بروئے کار آیا۔ سوال یہ ہے کہ جن بنگالیوں نے 1947ء میں پاکستان بنایا تھا وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں مائل ہوگئے؟
مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اسی اعتبار سے پاکستان کے معاشی اور سماجی وسائل سے حصہ ملنا چاہیے تھا، لیکن مشرقی پاکستان کے لوگوں سے کہا گیا کہ تمہیں مساوات کے اصول کو تسلیم کرنا ہو گا اور وسائل میں تمہارا حصہ 54 فیصد نہیں صرف 50 فیصد ہوگا۔حسین شہید سہروردی نے پاکستان کی وحدت کیلئے اس اصول کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی اور وہ اپنی مہم میں کامیاب رہے۔اس وقت کے حکمرانوں نے مساوات کے اصول پر بھی عمل نہ کیا۔ یہاں تک کہ حسین شہید سہروردی کی عزیزہ بیگم شائستہ اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں شکایت کی ہے کہ حسین شہید سہروردی نے مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنے سیاسی کیریئر کو داوپر لگایا، لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی اُن کی اس خدمت کا اعتراف بھی نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں معاشی استحصال کی شکایات عام ہوگئیں۔ مثال کے طور پر بنگالی آبادی کا 54 فیصد تھے لیکن برّی فوج میں ان کی موجودگی صرف آٹھ دس فیصد تھی۔ فضائیہ میں ان کی موجودگی زیادہ تھی مگر یہ بھی پندرہ، بیس فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ مشرقی پاکستان میں 50 تھانے تھے تو صرف پانچ چھ تھانوں کے سربراہ بنگالی تھے۔ پاکستان کی نوکر شاہی کا معاملہ بھی یہی تھا، بیورو کریسی میں بنگالیوں کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل یحییٰ خان نے 1970ء میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ چونکہ پاکستان کی 56 فیصد آبادی مشرقی پاکستان میں رہتی تھی اس لیے قومی اسمبلی کے 300 ارکان میں سے 162 وہیں سے منتخب ہونا تھے۔ شیخ مجیب الرحمان نے چھ نکات کی بنیاد پر تعصب کی آگ بھڑکا دی۔ ادھر مغربی پاکستان میں ذوالفِقارعلی بھٹوروٹی کپڑا اور مکان کے نام پر لوگوں کی حمایت حاصل کر رہے تھے۔ خطرناک امر یہ تھا کے پیپلز پارٹی کا ایک امیدوار بھِی مشرقی پاکستان سے انتخاب نہیں لڑ رہا تھا اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی تحریک صرف مشرقی بازو تک محدود تھی۔ جب نتائج آئے تو شیخ مجیب الرحمان کو 162 میں سے 160 (7نشستیں خواتین کی تھیں)اور ذوالفقارعلی بھٹوکو مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں (5خواتین کی نشستیں)حاصل ہوئیں۔ 3 مارچ کو ڈھاکہ میں نو منتخب اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا لیکن ذوالفقارعلی بھٹو نے اعلان کیا کہ جو بھی اس اجلاس میں شرکت کیلئے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ جنرل یحییٰ خان نے معاملات کو سنبھالنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کردیا۔ سازشوں کے تانے بانے بننے والا ازلی دشمن اسی موقع کے انتظار میں تھا۔ ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں فوجیں اتار دیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوفناک جنگ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک آپہنچی۔ اس جنگ کا اوّلین مقصد مشرقی پاکستان کا بازوں ہم سے الگ کرنا تھا۔ اس موقع پر ایک بار پھر مشرقی پاکستان کے مخلص،باوفا اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کیلئے کوشاں شہریوں نے ہندوستان اور مکتی باہنی کے لاکھوں غنڈوں کے مقابلے میں اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے ملک کا دفاع کیا۔
1971ء کی جنگ کا اختتام 16 دسمبر 1971ء کی شام ڈھاکہ کی ریس کورس گراونڈ میں بچھی اس میز پر ہوا جس کے ایک طرف ہندوستان کی فوج کا جنرل جگجیت سنگھ تنا بیٹھا تھا اور اس کے پیچھے ہندوستانی فوجی افسروں میں ایک نمایاں چہرا یہودی افسر میجر جیکب کا تھا جو سقوط ڈھاکہ میں شریک دیگر عالمی قوتوں کا تعارف کروا رہا تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے جنرل عبداللہ خان نیازی اس دستاویز پر دستخط کر رہے تھے جس کے بعد ہمارے 93 ہزار فوجی اور سول سرکاری ملازم ہندوستان کی قید میں چلے گئے۔ ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس موقع پر تکبر سے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور سیاسی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملکی سلامتی کیلئے کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور دیگر طبقات کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کیلئے اقتدار کی ہوس کو ختم کریں اور اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کریں، اقلیتوں کی رائے اور ان کے حقوق کا احترام کریں اور ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
پروفیسر ثاقب حسین شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں، ان کے مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں