قناعت پسندی: عمدہ ونیک وصف
’’قناعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ’’جو مل جائے اُس پر راضی رہنا اور اسے ہی اپنی قسمت تصور کرنا ‘‘۔یہ ایک ایسا عمدہ اور نیک وصف ہے، جس کے ذریعے انسان انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی گزارہ کر کے اپنے پروردگار کا قرب حاصل کرسکتا ہے۔ ملتا تو انسان کو وہی ہے جو ربِّ کائنات نے اُس کی قسمت میں لکھ رکھا ہوتا ہے، تو پھر خواہ مخواہ کڑھ کڑھ کر زندگی گزارنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان ’’قناعت‘‘ اختیار کرلے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مل جائے اسے خوشی خوشی دل و جان سے قبول کرکے اسی پر راضی رہے اور اُسی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے؟
آج ہماری زندگیوں میں خوشیاں کیوں نہیں ہیں؟راحت و سکون کیوں اُٹھ چکا ہے؟ بے برکتوں اور نحوستوں نے کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟ اسی لئے نا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہیں ہیں! ہم اپنے مقدر پر خوش نہیں ہیں!ہم اپنی قسمت سے نالاںہیں! حالاں کہ اگر آج ہی ہم زُہد و قناعت اور صبر و شکر والی زندگی گزارنا شروع کردیں تو یقین جانیے ہماری زندگیوں میں خوشیاںدوبارہ لوٹ آئیں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہونے لگ جائے اور ہمارے معاشی حالات بہتر سے بہتر ہونا شروع ہو جائیں۔اور پھر مزے کی بات یہ کہ اس کیلئے ہمیں اجتماعی اور عالمی سطح پر نہیں بلکہ علاقائی و لسانی سطح پر بھی نہیں بلکہ صرف انفرادی سطح پر محنت شروع کرنی ہوگی ، ہماری زندگیاں خود بخود خوشحال ہونا شروع ہوجائیں گی، ہمارے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے اور ہم ایک اسلامی معاشرے میں ایک اچھے مسلمان بن کر زندگی گزارنے والے کہلانے کے مستحق ہوجائیں گے۔
اسلام کی شاندار لہلہاتی تاریخ اس قسم کے بیشمار واقعات سے لبریز ہے جس میں مسلمانوں نے انتہائی کسمپرسی اور دگرگوں حالات کے باوجود بڑی خوشحال اور آسودہ زندگیاں گزاری ہیں۔ ایک مرتبہ دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے ، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروق ؓ بھی تشریف لے آئے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا ’’ آپؓ اس وقت یہاں کہاں ؟ ‘‘ فرمایا کہ : ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا ‘‘ ،حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا ’’ واللہ ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا۔ دونوں حضرات گفتگو کر ہی رہے تھے کہ سردار دو عالم نبی اکرم ﷺتشریف لے آئے ، ان کو دیکھ کر دریافت فرمایا : ’’تم اس وقت کہاں؟‘‘ عرض کیا، یارسول اللہﷺ! ’’بھوک نے پریشان کیا ، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے ‘‘۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ اسی مجبوری سے میںبھی آیا ہوں ‘‘۔
تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے مکان پر پہنچے ، وہ تشریف نہیں رکھتے تھے، بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا، کچھ دیر میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرط خوشی میں کھجورکا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے ۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’سارا خوشہ کیوں توڑا؟ اس میں کچی اور ادھ کچی بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے ‘‘ انہوں نے عرض کیا : ’’ اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں جو پسند ہو وہ نوش فرماویں ‘‘ (کیوں کہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے ادھ کچی زیادہ پسند ہوتی ہیں ) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا کچھ سالن تیار کر لیا۔ حضور اقدس ﷺنے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر حضرت ابو ایوب انصاری ؓکو دیا کہ یہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ کوپہنچادو ، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا ، وہ فوراً پہنچاکر آئے ۔ان حضرات نے بھی سیر ہوکر نوش فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ : ’’دیکھو ! یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ، روٹی ہے ، گوشت ہے ،ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں ‘‘یہ فرماکر نبی اکرمﷺ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا : ’’اُس پاک ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیںجن سے قیامت میں سوال ہوگا ‘‘(فضائل ذکر : ص 163، 164 )
حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’ تو متقی بن جا سب سے بڑا عبادت کرنے والا ہوجائے گا اور (کم سے کم مقدار پر) قناعت کرنے والا بن جا تو سب سے زیادہ شکر گزار ہوجائے گا، اور اپنے بھائی کیلئے بھی اُس چیز کو پسند کر جس کو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو کامل مومن بن جائے گا‘‘(فضائل صدقات: جلد دوم، ص 195)۔
حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓنے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یہ خط لکھا کہ دُنیا میں جتنی روزی مل رہی ہے تم اُس پر راضی رہو اور اسی پر قناعت کرلیا کرو، کیونکہ رحمان نے اپنے بندوں کو کم زیادہ روزی دی ہے۔ اور یوں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو آزمانا چاہتے ہیں کہ جسے روزی زیادہ دی ہے اسے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ میرا شکر کیسے ادا کرتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کا اصل شکر یہ ہے کہ اُس نے جو دیا ہے اسے وہاں خرچ کرے جہاں وہ چاہتا ہے (کنز العمال، جلد دوم، ص 161)۔
محمد بن واسع ؒ مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ سوکھی روٹی کو پانی میں بھگوکر کھا لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو اس پر ’’قناعت‘‘ کرلے وہ کسی کا بھی محتاج نہ ہو۔ ایک حکیم کا ارشاد ہے کہ میں نے سب سے زیادہ غم میں مبتلا رہنے والا ’’حسد‘‘ کرنے والے کو پایا اور سب سے بہترین زندگی گزارنے والا قناعت کرنے والے کو پایا۔ امام غزالی ؒ بیان کرتے ہیں کہ فقر بہت محمود چیز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شخص قناعت کرنے والا ہو۔ لوگوں کے پاس جو مال ہیں اُن میں طمع نہ رکھتا ہو۔ اُن کی طرف ذرا بھی التفات نہ کرتا ہو۔ اور نہ مال کے کمانے کی اُس میں حرص ہو۔ اور یہ سب چیزیں جب ہی ہوسکتی ہیں جب کہ آدمی اپنے اخراجات میں نہایت کمی کرنے والا ہو۔ کھانے میں، لباس میں، مکان میں کم سے کم اور مجبوری کے درجہ پر کفایت کرنے والا ہو اور گھٹیا سے گھٹیا چیز پر قناعت کرنے والا ہو۔اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو ایک مہینہ کے اندر اندر کی ضرورت کا تو خیال ہو ، اس سے آگے کی کسی چیز کی طرف اپنے خیال اور دھیان کو نہ لگائے۔ اگر اس سے آگے کی سوچ میں پڑجائے گا تو قناعت کی عزت سے محروم حرص و طمع کی ذلت میں پھنس جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے بری عادتیں پیدا ہوجائیں گی۔ مکروہ چیزیں اختیار کرنا پڑجائیں گی۔ اس لئے کہ ٓدمی بالطبع حریص ہے‘‘(فضائل صدقات: جلد دوم، ص 194)۔
نبی کریمﷺ، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین کے مندرجہ بالا فرامین و معمولات ِ زندگی کا حاصل اور نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ اپنی زندگیوں میں خوش حالیاں و آسودگیاں اور راحت و سکون لانے کا یہی ایک نسخہ ہے کہ آدمی اپنے اندر ’’قناعت‘‘ والی صفت پیدا کرلے، خواہشاتِ نفسانیہ (حرص و طمع اور بے صبری و ناشکری اور ناحق اپنی قسمت پر رونے) جیسی مذموم صفات ایک ایک کرکے اُس کے دل سے نکلنا شروع ہوجائیں گی اور اُس کی زندگی خوش حالی و فراوانی اور مرفہ الحالی و آسودگی کا گہوارہ بن جائے گی اور اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کے اندر بھی لذت محسوس ہوگی۔