ووٹ کی شرعی حیثیت
اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فرد کی اصلاح پر زور دیتا ہے، وہیں اجتماعی زندگی کے زریں اصول بھی وضع کرتا ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے، وہیں معاملات و معاشرت اور اخلاقیات کو بھی اوّلین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کاجس طرح اپنا نظامِ معیشت اور اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست و حکومت ہے۔ اسلامی نظام سیاست کو خلافت اسلامیہ، نظام مصطفیٰ اور اسلامی شورائی نظام کہا جاتا ہے۔ عصر حاضر کے اسلامی جمہوری نظام کو بھی اسی نظم میں پرونے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام ایسا کامل ضابطۂ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت و معاشرت کے اصول و آداب سکھلاتا ہے بلکہ وہ شفاف حکمرانی کے گْر بھی سکھاتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں اسلامی نظام کیلئے اہل مناصب کی صفات اور ان کے چناؤ کیلئے ووٹ کی شرعی حیثیت پر گفتگو کی جائے گی۔
اہل منصب کاانتخاب
کسی بھی منصب کی اہلیت کیلئے قرآن و حدیث میں کچھ صفات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں۔
پختہ عزم و الا اور امانت دار ہونا: کسی بھی عہد ہ کیلئے بندے کا تقررکرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اہل اور امانت دارہو۔ قرآن مجیدمیں ہے: ’’ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا، اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے، جو طاقتور اور امانت دار ہو‘‘ (القصص: 26)۔
اہلیت کاپرکھنا: حاکم کاکسی عہدہ پر تقرر کرنے کیلئے امیدوارکی اہلیت کوجانچناازحدضروری ہے۔مثلاًحضرت یوسف علیہ السلام کوعزیزمصرکے عہدہ پرفائز کرنے کیلئے پہلے امتحان اوران کی اہلیت کو پرکھا گیا پھر عہدہ پر فائز کیا گیا ارشادباری تعالیٰ ہے، ’’ بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں‘‘ (یوسف: 54)۔گویامنصب کی اہلیت کیلئے قوت اورامانتداری اہم رکن ہیں۔ہرمنصب (عہدہ)کیلئے قوت اس منصب کے اعتبارسے ہوتی ہے۔مثلاًجنگ کی قیادت لیے جوقوت مطلوب ہوتی ہے وہ شجاعت قلبی،جنگی تجربہ،جنگی مہارتیں،اپنے ماتحتوں کی نگہداشت اور مدمقابل کو مات دینے کی کامل مہارت ہو۔ لوگوں کے مابین فیصلہ کرنے کیلئے جو قوت مطلوب ہوتی ہے وہ ہے عدل سے متعلق کامل علم اورفیصلہ کونافذکرنے کی مکمل قدرت،اسی طرح کسی بھی سرکاری عہدہ پرمنتخب ہونے کیلئے اس مطلوبہ عہدہ کی مکمل استعداد ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ اگرکسی بھی نااہل شخص کومحض اس کی دولت کے بل بوتے پر یا اثرورسوخ کی بناپر یاکسی کی سفارش کی وجہ سے کسی اہم عہدہ پرفائز کردیا جاتاہے تواس کی نااہلیت اور جہالت کے اثرات ایک فردپر نہیں بلکہ پوری قوم پر پڑتے ہیں۔ جس سے ملک و ملت کانظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے وقوع قیامت سے متعلق سوال کیاتو آپﷺ نے فرمایا: ’’جب دین ودنیاکامعاملہ نااہلوں کے سپرد کردیا جائے توقیامت کاانتظارکرو‘‘(صحیح بخاری: 59)۔
جسمانی صحت اورعلمی وسعت:عہدہ پرکسی بھی شخص کومامورکرنے کیلئے مال ودولت، جاہ وحشمت، تعلق داری، رشتہ داری،اقرباپروری کی بجائے عہدہ کے مطلوب امیدوارکیلئے اہلیت ہونابہت اہم ہے۔قرآن مجیدمیں ذکرملتاہے کہ جب حضرت طالوت کوبنی اسرائیل کا حکمران مقررکیاگیاتواسرائیلیوں نے اعتراض کیا کہ ان کی تومالی حالت اچھی نہیں اس لیے انہیں یہ سرداری نہیں ملنی چاہیے توجواباًاس وقت کے نبی نے کہا:اللہ تعالیٰ نے اس کا چناؤاس کی جسمانی صحت اورعلمی وسعت کی وجہ سے کیا ہے،قرآن مجیدمیں ہے: ’’ ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے :کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حقدار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اللہ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اللہ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے‘‘(البقرہ:247)
ووٹ شریعت مطہرہ کی روشنی میں
انتخابات میں کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے لحاظ سے ووٹ شرعی اعتبارسے چند حیثیتیں رکھتاہے ، (1)شہادت، (2) سفارش،(3)حقوق کی وکالت، (4)امانت۔
شہادت دینا
ووٹ دینے کی ایک حیثیت شہادت کی ہے ،یعنی جب ایک ووٹر کسی کو ووٹ دیتا ہے توگویا اس کے دین، اخلاق،کردار،عقل و دانائی،علم وہنر اوردیگرصلاحیتوں،قابلیتوں اورامانتداری کی گواہی دیتا ہے۔اب اگر امیدوار مذکورہ صفات کا حامل ہے توووٹر کی شہادت صحیح ہے اوروہ مستحق اجرہے اوراس کے ثمرات سب کوملنے والے ہیں ۔ اگر حقیقت میں امیدوار کے اندر مذکورہ صفات نہیں ہیں اور ووٹریہ جانتے ہوئے نااہل اورخائن شخص کو ووٹ دیتا ہے تویہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی شہادت دینا ہے۔ جس کے غلط اثرات ملک وملت اورمعاشرہ پرپڑسکتے ہیں۔جھوٹی شہادت(گواہی) دینا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ اس بارے میں احادیث طیبات حسب ذیل ہیں۔
حضرت ابو بکرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہ نہ بتلاؤں؟ یہ الفاظ آپ نے تین بار دہرائے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ضرور بتلایئے، آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا( ابھی تک آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے) اور فرمایا: سنو!!جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا، پھر آپ یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ کاش آپﷺخاموش ہو جائیں(صحیح بخاری: 2654)
حضرت خریم بن فاتک اسدیؓ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ ﷺنے نمازِ فجر ادا فرمائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’جھوٹی گواہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے‘‘۔ پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ’’دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے، ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘‘(سنن ابی داؤد:3599)
ووٹ بذات خود شہادت نہیں بلکہ یہ شہادت کی مثل ہے۔ جس طرح شہادت میں گواہ کسی چیز کا دعویٰ کرنے و الے شخص کے حق میں گواہی دیتا ہے اسی طرح ووٹ کے موجودہ نظام میں بھی انتخابات کیلئے کھڑا ہونے والا امیدوار شخص دو چیزوں کا دعویٰ کرتا ہے: ایک یہ کہ وہ اس کا م کی قابلیت رکھتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ اس کام کو انجام دے گا۔ اس کو ووٹ دینے والا شخص امیدوار کے متعلق ان دونوں دعووں پر گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اور دیانت دار و امانت دار بھی ہے۔
سفارش کرنا:
ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش کی ہے کہ ووٹر اس امیدوار کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے۔سفارش کے بارے میں قرآن کریم نے یہ ضابطہ بیان کیاہے کہ: جو شخص کوئی نیک سفارش کرے تو اس کیلئے اس (کے ثواب) سے حصہ (مقرر) ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرے تو اس کیلئے اس (کے گناہ) سے حصہ (مقرر) ہے‘‘ (النساء :85)
حقوق کی وکالت
ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹرامیدوارکواپنے سیاسی اوردینی امورکاوکیل بنا رہاہے۔ظاہر ہے کہ وکیل ایسے شخص کو بنایاجاتا ہے جو وکالت کی ذمہ داری صحیح طریقہ سے انجام دے سکے، اور خاص کر یہ وکالت تو ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے، اس لیے اگرکسی نااہل کو اپنی نمائندگی کیلئے ووٹ دیا ، جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہو گیا تو پوری قوم کے حقوق پامال کرنے کا وبال ووٹرپربھی ہو گا۔
امانت
ووٹ کی چوتھی حیثیت امانت کی ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹ دینا ایک شرعی امانت داری کی ذمہ داری کو ادا کرنا ہوتاہے ،ووٹ دینے والاووٹ دے کرقومی امانت کی ذمہ داری کو منتخب نمائندے کے سپرد کرتاہے اورامانت کی ادائیگی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘(النساء: 58:4)
اس آیت کریمہ میں دو حکم بیان کئے گئے، پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں، اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔اوریہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
امانت ادا کرنے کے متعلق آیات
امانت اداکرنے کے بارے میں چندارشادباری تعالیٰ حسب ذیل ہیں۔(1)’’پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے‘‘(البقرہ:283)۔ (2) ’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (ﷺ) سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (سب حقیقت) جانتے ہو‘‘ (الانفال:27)۔ (3)’’جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں‘‘ (المؤمنون: 8)
امانت کی ادائیگی اوراحادیث مبارکہ
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا، حالانکہ اس کی جماعت میں اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا فرمان بردار بندہ تھا ،تو بنانے والے نے اللہ ، اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی (المستدرک ج 4، ص 92-93)
حضرت ابن عباس ؓہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا حکمران بنایا حالانکہ وہ شخص جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی‘‘ (کنز العمال ،ج6، ص79)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اپنے بھائی کی رہنمائی کسی چیز کی طرف کی ،حالانکہ اس کو علم تھا کہ اہلیت اور صلاحیت اس کے غیر میں ہے، تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی (سنن ابوداود:3657)