ملیکۃ العرب ، اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی ٰ عنہا

تحریر : ڈاکٹر عقیل احمد


تاریخ اسلام نے اسلام کے ان اوّلین وفا شعاروں کو خصوصی طور پر یاد رکھا ہے جنہوں نے اُس عہدِ ستم میں ہر دکھ کا سامنا بڑی عزیمت کے ساتھ کیا۔ سابقون الاوّلون میں سے جن سعید ارواح نے سرورِ کونین ﷺ کی دعوت ِالی الحق پر لبیک کہا ان میں سرِ فہرست حضرت سیدہ خدیجہؓ ہیں۔ آپؓ مکہ مکرمہ کے معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، دورِ جاہلیت ہی میں آپؓ کا لقب ’’طاہرہ‘‘ تھا، اور اعلیٰ کردار، حُسنِ اخلاق، شرافت، عفت، صدق، وفا‘ غرض ہر وہ خوبی جو ایک خاتون کو بارگاہِ رب ذوالجلال میں پسندیدہ بناتی ہے آپؓ کی ذات بدرجہ اتم موجود تھی۔ ان تمام شخصی کمالات کے علاوہ آپؓ ایک کامیاب تاجر بھی تھیں‘ اور اپنی خاندانی وجاہت اور سماجی وقار کے اعتبار سے اُس عہدِ جاہلیت کی ایک عظیم خاتون تھیں۔

آپؓ کی تجا رت ہی کی وجہ سے آپؓ کا حضورِ اکرم ﷺ سے رابطہ ہوا۔ جب سیدہ خدیجہؓ نے نبی کریم ﷺ کی صداقت و دیا نت اور دیگر محاسن کے چرچے اطراف سے سنے تو حضورِ اکرم ﷺ کو تجارت کی پیشکش کی، جسے نبی کریمﷺ نے قبول فرمایا اور مضاربت کے اصولوں پر آپؓ کے مالِ تجا رت کو لے کر ملکِ شام کی منڈیوں میں تشریف لے گئے۔اس دوران حضرت سیدہ خدیجہؓ کے خدام نے حضورِ اکرم ﷺ کی تجارتی طریقوں کو بغور ملاحظہ کیا اور جو نفع اور برکات حاصل ہوئیں اُن کا ذکر سیدہ خدیجہؓ سے کیا‘ جس کے بعد سیدہ نے آپﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضورِ اکرمﷺ نے اپنے خاندانی بزرگوں سے مشاورت کے بعد قبول کر لیا۔ نکا ح کے وقت حضورِ اکرمﷺ کا سِن مبا رک 25 برس اور سیدہ خدیجہؓ کی عمر 40 برس تھی۔ حضرت خدیجہؓ سے حضورِ اکرمﷺ کی چار صاحبزادیاں حضرت سیدہ زینبؓ، حضرت سیدہ رقیہؓ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ، حضرت سیدہ فاطمہؓ اور دو بیٹے حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ پیدا ہوئے۔

پہلی وحی کے بعد حضورِ اکرم ﷺ جب ایک خاص حالت میں غارِ حرا سے گھر تشریف لائے تو سب سے پہلے سیدہ خدیجہؓ ہی سے سارا معاملہ بیان فرمایا۔ سیدہ خدیجہؓ نے جن الفاظ سے آپﷺ کو تسلی دی وہ سماجیات و اخلاقیاتِ سیرت کی بنیاد ہیں اور نبی کریم ﷺ کی رفاقت میں گزرے ماہ وسال کے مشاہدات ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ آپ ﷺکو ہرگز غمزدہ نہیں کرے گا کیونکہ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محروموں کو عطا کرتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں اور راہِ حق میں آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ابھی نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ دعوتِ اسلام نہیں دی لیکن پیغمبرِ اعظمؐ کی رفیقۂ حیات اللہ کی قسم کھا کر، اللہ کا نام لے رہی ہیں، یہ ذاتِ رسالت کے ساتھ رفاقتوں کا فیضان ہے کہ آپؓ کے منہ سے کلماتِ خیر ہی ادا ہو رہے تھے۔

غار ِحرا میں ایک بار حضرت خدیجہ رسول ﷺ کیلئے کھانا لے کر آ رہی تھیں تو ان سے قبل حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لے آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہﷺ! خدیجہؓ  آ رہی ہیں ان کو جنت میں ایک ایسے محل کی خوشخبری دیجئے جو موتیوں والا (بہت خوبصورت) اور نہایت پرسکون اور شاندار ہے۔نبی کریم ﷺ کی حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پچیس برس رفاقت رہی ان کی موجودگی میں آپ ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔ جس سال حضرت سیدہ خدیجہ کا وصال ہو ا آپﷺ بہت مغموم ہوئے جس وجہ سے اُس سال کو عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا گیا۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیںکہ نبی کریمﷺ اکثر حضرت خدیجہ ؓکو یاد کر کے اشک بار ہو جایا کرتے، میں عرض کرتی کہ شاید خدیجہؓ کے برابر دنیا میں کوئی عورت نہیں تو آپ ﷺ فرماتے بے شک خدیجہؓ ایسی ہی (باکمال و صفات محمودہ والی) تھیں‘ کیونکہ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے میری تصدیق کی جب لوگوں کا رویہ میرے ساتھ درست نہ تھا تو خدیجہؓ نے میرے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔یہ حضرت سیدہ خدیجہؓ کی عظمت و توقیر ہے کہ سید العالمینﷺ ان کی رحلت کے بعد جانور ذبح کرتے تو سیدہ کی سہیلیوں کو بھی بھیجتے، سیدہ سے جڑے رشتوں اور نسبتوں کا ہمیشہ لحاظ کرتے۔ آپﷺ فرمایا کرتے: ’’بے شک مجھے ان کی محبت عطا کی گئی ہے‘‘۔ 

حضرت سیدہ خدیجہؓ کا نبی پاکﷺ سے حسنِ سلوک امت پر احسان ہے کہ اسلام کے اوّلین مشکل ترین دور میں آپ جس جرأت و استقامت کے ساتھ سرورِ کونین کے ساتھ راہِ حق پر ڈٹی رہیں یہ انہی کا طرہ امتیا زہے جبکہ اس نازک عہد میں دیگر قبائل تو ایک طرف آپؓ کے کئی اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے لیکن اسلام کی اس خاتونِ اوّل، مومنہ اوّل اور رسولِ خدا ﷺ کی منکوحۂ اوّل نے ہر موقع اور ہر لمحہ پر ایک وفا شعار زوجہ ہونے کا ایسا حق ادا کیا کہ جس کی نظیر ممکن نہیں۔

ایک مسلمان خاتون کے بنیادی فرائض کیا ہیں، وہ کس طرح گھر اور سماج میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے سیدہ خدیجہؓ سے بڑی مثال کوئی نہیں۔

سورۃ الاحزاب میں ایک صالح خاتون کی جو آٹھ خوبیاں قانتات، صادقات، صابرات، خاشعات، متصدقات، صائمات،حافظات اور ذاکرات کا ذکر ہوا ہے۔ قناعت، صدق، صبر خشیعت، صدقہ و خیرات، صوم و صلوۃ، عفت و عصمت، ذکر و اذکار، ان سب کی جامع حضرت سیدہ خدیجہؓ کی ذات تھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک خا تون کے حوالے سے ان قرآنی بیان کردہ اوصاف کی مجسم تفسیر حضرت سیدہ خدیجہؓ کی ذات تھی تو مبالغہ نہ ہو گا۔

حضورِ اکرم ﷺ کے حضرت سیدہ خدیجہ کے ساتھ نکاح کے اور بھی چند خاص پہلو ہیں جو حسب ذیل ہیں: نبی کریم ﷺ کا جب حضرت سیدہ خدیجہ سے نکاح ہوا تو وہ آپ ﷺ سے پندرہ برس بڑی اور بیوہ تھیں۔ اس سے آپ ﷺ نے یہ اسوہ دیا کہ اگر منکوحہ عمر میں بڑی ہو یا  بیوہ ہو تو یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جو عائلی زندگی کو خوشگوار نہ رکھ سکیں۔ عصری معاشروں میں بڑی عمر کی خواتین سے نکاح، بیوہ اور معاشی سرگرمیوں میں مصروف خواتین سے نکاح کے حوالے سے کوئی بہتر صورتِ حال نظر نہیں آتی۔ نبی کریمﷺ اور حضرت خدیجہؓ کا نکاح ان تمام اور دیگر عائلی زندگی کے پہلوئوں کو درست رکھنے کیلئے روشن مینار ہے۔

اس کے علاوہ حضرت سیدہ خدیجہؓ کی موجودگی میں آپ ﷺ کا عقدِ ثانی نہ کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ دوسری شادی کرنا لازمی معاملہ نہیں ہے، اگر ایک بیوی کے ساتھ آپ کو ذہنی، عائلی اور مالی آسودگی کے ساتھ اولا د کی خوشیاں بھی حاصل ہیں اور عائلی زندگی کے مقاصد کا حصول ہو رہا ہے تو  پھر ایک وقت میں ایک بیوی بھی کافی ہے۔ 

حضرت سیدہ خدیجہؓ کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ پچیس سالہ رفاقت سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ عائلی زندگی میں بیوی کی صالحیت ہی سے اس کی شوہر کے ساتھ ہمدردی، غم خواری، محبت و وفا اور شفقت و ایثار جیسے پہلو ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آج نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی کو نبی کریم ﷺ اور حضرت سید ہ خدیجہؓ کی عائلی زندگی کا لا زمی مطالعہ کرایا جائے اس سے نہ صرف نسبتِ رسولﷺ کا استحکام حاصل ہو گا بلکہ ایک خوبصورت اور پر سکو ن عائلی زندگی کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا۔بے شک دین اسلام نے بہترین عائلی زندگی کے جو اوصاف بیان کئے ہیں‘ پیغمبرِ اسلام ﷺکی حیاتِ طیبہ اس سلسلے میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔