سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

 سیدنا حضرت امیر حمزہؓ کا دربار رسالت مآب میں بہت ہی بلند مقام و مرتبہ ہے اور آپ ؓسیدنا امیر المومنین خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے بعد سرکار کائناتﷺ کے نائب کا کردار ادا فرماتے۔ دور نبویﷺ میں بھی صحابہ کرامؓ نبی پاک ﷺ کے بعد رہنمائی کیلئے آپؓ سے رجوع کیا کرتے تھے۔ سیدناحضرت عبدالمطلب کی ساری اولاد میں صرف ابو لہب ہی مشرک تھا، باقی سب صاحبزادے اور صاحبزادیاں دین حنیف پر تھیں۔ انھیں اس بات پر بڑا فخر تھا کہ یہ سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اور سرکاردوجہاں  کی امت میں سے ہیں۔

سیدنا حضرت امیر حمزہؓ بھی اپنے آباؤاجداد کے دین پر تھے جن کے بارے میں خود خدا پاک نے اپنے لاریب کلام مقدس میں ارشاد ربانی فرمایا کہ وہ سب سجدے کرنے والے تھے آپؓ اعلان اسلام سے قبل بھی کبھی بت پرستی کے نزدیک نہ گئے۔ شراب،جوااور دیگر امور سے آپؓ کوسوں دور تھے۔ آپؓ کا شوق پہلوانی اور شکار تھا، جس میں آپؓ مصروف رہا کرتے تھے۔ 

سیدنا حضرت امیر حمزہؓ  امام المجاہدین اور سید الشہداء کے بلند مقامات پر فائز ہیں۔ آپؓ کی تلوار انتہائی منفرد تھی دو دھاری اور انتہائی بھاری تھی اور اس تلوار کا وار رک نہ سکتا تھا۔ اگر سیدھی پڑتی تو ڈھال کوکاٹ دیتی کیونکہ اتنی بھاری تلوار کو روکنا تلوار کا کام نہیں ہے اور دودھاری ہونے کی وجہ سے اگر لوٹ آتی تو چلانے والے کو دو لخت کر دیتی تھی۔ آپؓ سے زیادہ زور آور کوئی نہ تھا جو ان کی تلوار واپس پلٹا سکتا اور نہ ہی ان کی تلوار کبھی واپس پلٹتی تھی۔ حقیقت میں آپؓ جیسا نہ کوئی طاقتور تھا اور نہ کوئی بہادر تیغ زن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی وہ تلوار آپؓ کے بعد کوئی بھی نہ چلا سکا اور اکثر تو اسے اٹھا بھی نہیں سکتے تھے۔ شمشیر زنی کی ہزاروں برس کی تاریخ میں کوئی بھی حضرت امیر حمزہؓ کا ثانی نہیں ملتا ۔اور ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ آپ ؓاللہ اور اس کے رسول پاکﷺ کے شیر تھے۔

 عشق رسول کریم ﷺ آپؓ کی حیات کا مرکز و محور تھا ۔آپؓ نے اپنی تمام زندگی حضور پاکﷺ کے قدموں میں وار دی اور ابدی حیات پائی اور جو محبت آقائے کائناتﷺ کو حضرت سیدنا امیر حمزہؓ سے تھی ویسی کسی اور سے نہ تھی۔ جب حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت ہوئی تو مدینہ کی عورتیں آئیں اور اپنے اپنے شہداء کا نوحہ کرنے لگیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ امیر حمزہؓ کا نوحہ کون کرے گا؟ یہ سن کر انصار نے اپنی عورتوں کو اپنے شہداء کے نوحہ کرنے سے روک دیا اور حضرت امیر حمزہ ؓ کا نوحہ کرنے کا حکم دیا۔ سب نے مل کر سید الشہداء کا نوحہ کیا اور اس کے بعد مدینہ میں یہ رسم پڑ گئی کہ جب بھی کوئی فوت ہوتا تو اس کی میت پر اظہار غم کرنے سے پہلے سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ کا نوحہ کیا جاتا تھا اور صدیوں تک مدینہ پاک میں یہ رسم رہی کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کے غم کو اپنے غم پر ترجیح دینے لگے۔ اللہ کے رسول ﷺ کو سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ کے وصال کا غم تا دم وصال رہا۔ آپ ہر سال تاریخ مقرر فرما کر جبل احد پر جاتے اور صحابہ کو بھی ساتھ لے جاتے اور ہر سال دن مقرر کر کے حضرت امیر حمزہؓ سمیت سب شہداء احد کیلئے دعا فرمایا کرتے۔ 

 بلاشبہ حضرت امیر حمزہؓ سرکار دوعالم ﷺ کی اس محبت کے اہل بھی تھے کیونکہ اللہ پاک اپنے محبوب کریم ﷺ کے دل کی بھی حفاظت فرماتا ہے اور جس سے سرکارﷺ کو محبت ہو اس سے محبت کرنا ہرہر ماننے والے امتی پر فرض ہے۔ گویا حضرت امیر حمزہؓ کی محبت ہرصاحب ایمان کیلئے لازم ہے۔

 اہل مدینہ کی یہ بھی روایت ہے کہ وہ مدینہ پاک جاتے ہوئے سیدنا حضرت امیر حمزہؓ کی قبر انور پر جاتے، سلام پیش کرتے اور آج بھی عشاق کرام کی ان کی قبر اقدس پر حاضری کیلئے ہر بدھ کافی تانتا بندھا رہتا ہے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ روایات میں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ قریش مکہ رسول خداﷺ کی عداوت میں پاگل ہورہے تھے۔ ایک دن سرکاردوعالم ﷺ کوہ صفا یا اس کے دامن میں جلوہ افروز تھے کہ ابو جہل اس طرف کو آنکلا اس نے آپ ﷺ کو نازیبا الفاظ کہے۔ آپ ﷺ نے جب اس کی بے ہودہ گوئی کا جواب نہ دیا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر آپ سرکار ﷺ کو مارا ،آپ زخمی ہو گئے اور خون مبارک بہنے لگا اور آپ خاموشی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔  ابوجہل صحن کعبہ میں آبیٹھا جہاں کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ حضرت سیدنا امیر حمزہؓ کی عادت تھی کہ روزانہ تیر کمان لے کر جنگل کی طرف نکل جاتے اور شکار کرکے شام کو طواف کعبہ کرکے اپنے گھر چلے جاتے تھے۔وہ حسب معمول جب شکار سے واپس آئے تو ابو جہل کی لونڈی ملی اس نے ابو جہل کا سرکار دو عالم ﷺ کی شان اقدس میں بد زبانی کرنا اور پتھر مارنا اور سرکار ﷺ کا خاموشی سے گھر آجانے کا سب حال آپ ؓکو بیان کردیا ۔حضرت امیر حمزہؓ آپ ﷺکے چچا ہونے کے علاوہ آپﷺ کے رضا عی بھائی بھی تھے چنانچہ خون اور دودھ کے جوش نے ان کو ازخودرفتہ کر دیا اور وہ خانہ کعبہ میں گئے ،طواف سے فارغ ہو کر سیدھے اس مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جہاں ابوجہل باتیں کر رہا تھا۔

حضرت سیدنا امیر حمزہؓنے جاتے ہی اس زور سے کمان اس کے سر پر ماری کہ اس کا سرپھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ پھر کہا میں بھی حضرت محمدﷺ کے دین پر ہوں، وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے، اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول۔ابو جہل کے ساتھیوں کو غصہ آیا اور وہ اس کی حمایت میں اٹھے مگر ابوجہل آپؓ کی بہادری سے اس قدر متاثر تھا کہ اس نے خود ہی اپنے حمایتیوں کو                                                                                                                                                                یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی ہی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ امیر حمزہؓ اگر اپنے بھتیجے کا انتقام نہ لیتے تو بے حمیت شمار ہو جاتے، غالباً یہ بات ابو جہل نے ان کو سنانے کیلئے کہی تاکہ بات یہیں ختم ہو جائے۔

 اس کے بعد حضرت امیر حمزہ آقا کریم ﷺ کی مقدس بارگاہ امیں آئے اور کہا کہ بھتیجے تم یہ سن کر خوش ہو گے کہ میں نے ابو جہل سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے۔ حضورپاکﷺ نے فرمایا کہ چچا میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا، ہاں اگر آپؓ مسلمان ہو جائیں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ یہ سن کر سیدنا حضرت امیر حمزہؓ نے اسی وقت اسلام قبول کرنے کا علان کر دیا اور سرکار دوعالمﷺ سے کلمہ پڑھنے کی سعادت قبول کی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی بہت قوت ملی، نبوت کے چھٹے سال آپؓ نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت سرکار دارارقم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ آپؓ کی شان اقدس میں بہت ہی گستاخ اور بے باک ہوگئے تھے ۔اب حضرت امیر حمزہ کے قبول اسلام نے ان کو اس قدر محتاط و مودب بنا دیا تھا کہ لوگ سرکار کی شان میں گستاخیاں کرنے میں کچھ تامل کرنے لگے۔

 غزوہ احد میں آپؓ سالار لشکر تھے اور پہلی مبارزت میں آپؓ نے قریش کے مشہور جنگجو سردار عتبہ کو جہنم واصل کیا اور پھر اس کے بھائی شیبہ کو بھی واصل جہنم کیا۔ جنگ احد میں آپؓ اپنی شجاعت سے اہل مکہ کا مقابلہ کرتے رہے ہندہ بنت عتبہ نے جو وحشی نامی ایک حبشی غلام جو ماہر نشانہ باز تھا سے کہا اگر تم جنگ میں امیر حمزہ ؓ کو شہید کر دو تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ وہ حضرت امیر حمزہؓ کا مسلسل تعاقب کر رہا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا ۔ وہ ایک مقام پر چھپ کے بیٹھ گیا اور حضرت امیر حمزہؓ مقابلہ کرتے ہوئے اس کے قریب سے گزرے تو اس نے چھپ کر نیزے سے آپؓ پر وار کیا جو آپؓ کی ناف مبارک سے ہو کر پشت سے نکل گیا اور سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ نے جام شہادت کا عظیم مرتبہ پایا۔ ہندہ نے آپؓ کے جسم مبارک کی بے حرمتی کی اور آپؓ کا شکم مبارک چاک کر کے اس میں سے جگر کو نکالا اور چبا کر نگلنا چاہا مگر نگل نہ سکی۔

 بعد میں جب فتح مکہ کے موقع پر ہندہ اور وحشی دونوں نے کلمہ پڑھا تو آپ ﷺ  نے دونوں کو حکم دیا کہ وہ کبھی آپﷺ کے سامنے نہ آئیں۔ حضور پاکﷺ اپنے چچا کی شہادت پر اس قدر روئے کہ کبھی پھر آپ ﷺ کو اس قدر روتے نہیں دیکھا گیا۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ حضرت امیر حمزہؓ کے جنازے کو قبلہ کی سمت رکھ کر بہت روئے حتیٰ کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی۔ اللہ اکبر!پھر سیدنا حضرت امیر حمزہؓکو مخاطب کر کے فرمایا اے حمزہؓ!اے اللہ کے شیر،اے رسول اللہ ﷺ کے شیر،اے حمزہؓ اے بھلائی کے کام کرنے والے،اے تکالیف کو دور کرنے والے،اے رسول اللہ ﷺ کے چہرے کی حفاظت و حمایت کرنے والے۔

11شوال المکرم 3ہجری کو جنگ احد ہوئی اور یہی آپؓ کی شہادت کا مقدس دن ہے۔ آپؓ اور دوسرے شہداء احد کے مزارات جبل احد کے دامن میں واقع ہیں، جنہیں حکومت نے گرا کر ایک احاطے کی شکل دے دی ہے۔ سرکار دوعالمﷺکے عاشقان آپؓ کے مزارات پر حاضری دینے ضرور جاتے ہیں اور فیوض و برکات پاتے ہیں۔ اللہ آپؓ کے صدقے میں امت رسولﷺ کی بخشش کرے اور ہماری سب مشکلات کو آسان فرمائے آمین 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان کا دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ:ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل مزید امتحان

آئی سی سی مینزٹی20 ورلڈ کپ میں صرف 27دن باقی رہ گئے ہیں۔کرکٹ کے ان مقابلوں میں شامل تقریباً تمام اہم ٹیمیں اپنے حتمی سکواڈز کااعلانکرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے تجربات ابھی تک ختم نہیں ہوسکے۔

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔