اسلام میں یتیموں کے حقوق

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

زمانہ قبل از اسلام آئے دن عربوں میں باہمی قتل و قتال اور کشت و خون ریزی جاری رہتی جس کے نتیجے میں بیسیوں معصوم بچوں کو داغ یتیمی ملتا اور اس کے بعد اُن پر ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا۔ خاندان کے خود کفیل لوگ ان کے مال و اسباب پر قابض ہوجاتے، ان کو تعلیم و تربیت سے عاری رکھتے اور ان کا کسی مناسب جگہ رشتہ طے کرکے اِن کی شادی نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ یہ بچے کل جب اپنے سن شعور کو پہنچتے اور عاقل بالغ ہو جاتے تو ان کے ہاتھ میں سوائے غلامی و اسیری، افلاس و تنگ دستی اور مناسب تعلیم و تربیت سے محرومی کے کچھ بھی نہ آتا۔ جب اسلام نے اپنی کرنیں بکھیریں اور وہ اِس دُنیا میں آیا تو اُس نے اپنی رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے یتیم بچوں اور بچیوں کو اُن کے حقوق دلوائے، اُن کی حفاظت و نگہداشت کی اور اُن کے حقیقی مقام و مرتبہ سے تمام مسلمانوں کو روشناس کیا۔

نبی کریم ﷺ کے مدینہ منورہ آجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے حقوق کے متعلق چند مخصوص احکام اُتارے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور یتیموں کو اُن کا مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو، اور یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر مت کھاؤ! بیشک یہ بڑا گناہ ہے‘‘ (سورۃ النساء:2)۔

زمانۂ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ یتیم بچیوں کے مال و جائیداد پر قبضہ کر لینے کی غرض سے اُن کے کفالت کرنے والے ان کو اپنے نکاح میں لے آتے اور بے والی وارث جان کر ان کو خوب ستاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان (مذکورہ عورتوں) سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کر لوجو تمہیں پسند آئیں‘‘(سورۃ النساء:03)۔

اسی طرح یتیم بچوں کے مال کو بد دیانتی اور اسراف سے بھی خرچ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اُن کو اُس وقت تک یہ مال سپرد کرنا چاہیے جب تب کہ وہ عقل و شعور کامل بیدار نہ ہوجائے، پس جب وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائیں اور اُن میں عقل و شعور بیدار ہو جائے تب اُن کی یہ امانت اُن کے سپرد کی جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ اُن میں سمجھ داری آچکی ہے تو اُن کے مال اُن ہی کے حوالے کر دو‘‘ (سورۃ النساء:06)

اسی طرح یہ بھی زمانۂ جاہلیت کا ایک دستور تھا کہ یتیم بچے بچی کے عاقل بالغ ہونے سے پہلے پہلے ہی محض اِس غرض اور نیت سے اُن کے مال کو جلدی جلدی ہڑپ کر لیا جاتا کہ کہیں سن شعور کو پہنچنے کے بعد ان کو یہ مال واپس نہ کرنا پڑ جائے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں، اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں! اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے، پھر جب تم اُن کے مال اُنہیں دو تو اُن پر گواہ بنالو، اور اللہ حساب لینے کیلئے کافی ہے‘‘ (سورۃ النساء:06)۔

احادیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے بھی یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے ساتھ صلہ رحمی اور شفقت و پیار کرنے کی بڑی تاکید اور ترغیب فرمائی ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو‘‘ (مسند احمد: 7577)

حضرت ابودرداءؓ نے حضرت سلمانؓ کی طرف لکھا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے تو تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور اسے کھلایا کرو‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:7095)

حضرت بشیر بن عقربہ جہنیؓ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے دن میری حضور ﷺ سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تو شہید ہوگئے، اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے‘‘ میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضور ﷺ نے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کر لیا اور فرمایا کہ: ’’کیا تم اِس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہؓ تمہاری ماں؟‘‘ (شعب الایمان للبیہقی:10533)

 بلا شبہ اسلام ہی وہ پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے اِس مظلوم گروہ کی داد رسی کی، عرب پہلی سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانہ کی بنیاد پڑی اور اسلامی حکومت وہ پہلی حکومت ہے جو جہاں جہاں وسیع ہوتی گئی ان کیلئے امن و راحت کا گہوارہ بنتی گئی۔ اُس نے یتیموں کیلئے پرسکون گھر بنائے، اُن کو ان کے حقوق دلوائے، اُن کے وظائف مقرر کیے، اُن کی اسلام کے مطابق مناسب تعلیم و تربیت کی، اور اُس نے اپنے قاضیوں اور حاکموں کو اِس مظلوم و بے کس طبقہ کا سر پرست بنایا۔ اُن کے جملہ معاملات کی دیکھ بھال کا حکم دیا اور اُن کے گھروں کو آباد کرنے کا اُن کو پابند بنایا۔ 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان کا دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ:ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل مزید امتحان

آئی سی سی مینزٹی20 ورلڈ کپ میں صرف 27دن باقی رہ گئے ہیں۔کرکٹ کے ان مقابلوں میں شامل تقریباً تمام اہم ٹیمیں اپنے حتمی سکواڈز کااعلانکرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے تجربات ابھی تک ختم نہیں ہوسکے۔

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔