آخرت کی زندگی!

تحریر : مولانا محمد اکرم اعوان


قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

انسان قدرت کا ایک عجیب آمیزہ ہے اور یہ اﷲ ہی کر سکتا ہے ۔اﷲ نے مادّے کی مختلف اشکال کو جمع فرماکر ان کے ساتھ روح کا رابطہ کردیا۔ مادّہ ایک انتہائی کثیف چیز ہے، روح کا تعلق عالم امر سے ہے جو انتہائی لطیف ہے۔ مادّے سے وجود بنامادّی نظام کو قائم رکھنے کیلئے اسے دماغ عطافرمایا عالم امر سے روح اس میں داخل فرمائی۔ دائمی اورابدی حقیقتوںکو جاننے کیلئے اسے لطیف قلب عطا کیا۔ 

جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے مختلف مدارس میں مختلف سکولوں میں مختلف اساتذہ کے پاس جاتاہے، سیکھتا چلاجاتا ہے۔ جو لوگ کسی سکول نہیں جاتے، کسی استاد سے نہیں سیکھتے، وہ بھی انسان ہوتے ہیں لیکن جو سیکھتے ہیں ان میں اور جو نہیں سیکھتے ہیں ان میں کتنا فاصلہ ہے؟ جو نہیں سیکھتے وہ زندگی میں اپنا ایک گھرتک نہیں چلا سکتے، جو سیکھتے ہیں وہ ملک چلالیتے ہیں۔دونوں انسان ہیں وہی مادی اجزاء ہیں،ویسی ہی روح ہے تو کتنا فاصلہ ہے کہ جو جتنا زیادہ سیکھتے ہیں وہ اتنے اعلیٰ مراتب تک پہنچتے ہیں۔ وہ ایک ملک کے نظام کو چلانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور جو نہیں سیکھتے وہ اپنا ایک ذاتی گھروندا بھی صحیح طرح سے نہیں چلا سکتے۔

 اسی طرح اس قلب کو بھی سکھانا پڑتا ہے اور اس میں اس کے دو ہی پہلو ہیں یہ دماغ کی طرح درمیان میں نہیں رہتا یعنی جو دنیاوی علوم نہیں سیکھتے پھر بھی اتنا ادراک توانہیںہوتا ہے کہ کھانا، کھا نا ہے، پیاس لگی ہے تو پانی پینا ہے، نیند آئی ہے تو سونا ہے، بستر چاہیے، کپڑا چاہیے۔ یہ جو روز مرہ کی ضروریات ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں اچھی نہ سہی کمتر سہی لیکن قلب اور روح کا معاملہ نازک ہے یہ یا زندہ ہوتا ہے یا مرد ہ درمیان میں اس کے کوئی جگہ نہیں ۔

قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں بتایا ہے کہ دنیاوی زندگی کیا ہے؟’’دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اصل زندگی عالم آخرت کی ہے‘‘ (العنکبوت)، جیسے کوئی بندہ خرافات میں لگا رہے، سینما ،تھیٹر دیکھتا رہے، آوارہ گردی کرتا رہے۔ واپس آئے تو اس کاگھر بھی لٹ چکا ہو، خانہ برباد ہو چکا ہو، چورڈاکو لے گئے ہوں، گھر والے قتل ہو گئے ہوں۔ یہ دنیا ایسی ہے کہ مادّی رزق کماتے رہو، مال جمع کرتے رہو، مادّی عہدے جمع کرتے رہو بہت کامیاب ہو گئے۔ جب آنکھ بند ہوتی ہے تو گھر بھی لٹ چکا ہوتا ہے اور دنیا بھی چلی جاتی ہے ۔

 وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ ’’یہ دنیاوی زندگی کیا ہے؟‘‘۔سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے، یہ نہیں کہا کہ یہ دنیا کھیل ہے، فرمایا: نہیں یہ د نیا ہے کیا؟ سوائے کھیل تماشے کے کچھ بھی نہیں جیسے بچے کھیل رہے ہوتے ہیں وہ بڑے خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ میں نے یہ جیت لیا،میں نے وہ کر لیا۔میں نے دوڑ جیت لی، میں نے گیم جیت لی۔ میں بڑا تیز بھاگا میں پکڑا نہیں گیا۔ جب کھیل ختم ہوتا ہے توکچھ بھی نہیں ہوتا۔ 

دنیاوی زندگی ایک امتحانی وقفہ ہے، ہر کوئی کمرئہ امتحان میں ہے، یہ وقفہ ختم ہو جائے گامگر آخرت ختم نہیں ہو گی۔اصل زندگی وہ ہے جوآخرت کے بعد شروع ہو گی اور کبھی ختم نہیں ہو گی۔کاش ہمیں اس حقیقت کی سمجھ آ جائے کہ د نیا اور آخرت کی زندگی کیا ہے ؟ان میں فرق کیا ہے ؟ جو آخرت کی زندگی جیتا ہے وہ بھی کھانا کھاتا ہے، کپڑے پہنتا ہے، بال بچے ہوتے ہیں، رشتہ دار دوست دشمن اسی طرح ہوتے ہیں جیسے دنیا کی زندگی جینے والوں کے ہیں۔ ایک ہی طرح کے کام ہیں لیکن دونوں کا مقصد الگ الگ ہوتا ہے جو آخرت کی زندگی جیتے ہیں وہ بھی دنیاکے کام کرتے ہیں لیکن اس انداز سے کرتے ہیں کہ کام دنیا کا ہو تعمیر آخرت کی ہو۔ وہ بھی کاروبار کرتے ہیں، ملازمتیں کرتے ہیں، مزدوریاں کرتے ہیں، تجارتیں کرتے ہیں، روزی کماتے ہیں، گھر بناتے ہیں۔ اُن کے بھی والدین، رشتہ دار اور عزیز ہوتے ہیں، اولادیں پالتے ہیں لیکن زندگی کا ہر کام ان سے پوچھتے ہیں جو آخرت سے واقف ہیں اور آخرت کی خبر دینے والے اصدق الصادقین ،حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔ 

قرآن مجید اﷲ کی کتاب ہے اور اﷲ کی کتاب بھی تو حضورﷺ کے طفیل نصیب ہوئی ہے اس کی تشریحات و تفسیرات بھی حضور اکرم ﷺ کے طفیل نصیب ہوئیں اﷲ کریم نے سارا کچھ قرآن حکیم میں بتا دیا، سارا حق ہے لیکن حضور اکرم ﷺ تو وہ ہستی ہیں جنہیں سارا کچھ دنیا میں دکھا بھی دیا گیاوجو د اقدس سمیت بالائے عرش تشریف لے گئے دوزخ کا ملاحظہ فرمایا اور جنت کا معائنہ بھی فرمایا اور پھر سب کوبتایا بھی اﷲ نے ان کی تعلیمات کو قیامت تک باقی رکھنے کا اہتمام بھی فرمایا۔

 زندگی کی حقیقیت یہ ہے کہ اس دنیا میں بندہ آخرت کی زندگی جیتا ہے۔ اس کے بھی دو درجے ہیں آخرت کا بہت اعلیٰ،بہت اچھا، بہت خوبصورت، بہت پیارا تصور ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بندہ انہی موسموں میںاسی گرمی سردی میںاسی دوستی دشمنی میں بستا ہو لیکن وہ زندگی اس دنیا میں رہ کر جنت میں بسر کر رہا ہو۔ اسے کوئی غم نہ ستائے، اسے کوئی دکھ نہ ہو، ہر لمحہ اس کا حیات آفرین ہو۔جو دنیا کی زندگی جیتے ہیں وہ کہتے ہیں ایسا ہوہی نہیں سکتالیکن ایسا ہی ہوتا ہے جو آخرت کی زندگی جیتے ہیں انہیں دنیا کی تکلیف بھی آئے تو بے قراری نہیں ہوتی ہے۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ یہاں پھنسی تھی تو یہ جراح نے چیر دی، اس پہ مرہم رکھ دیا یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ کوئی خطا ہو گئی تھی مالک نے یہ تھوڑی سی سزا دے کر وہ معاف کر دی۔

 کوئی درجہ ایسا تھا جس کیلئے یہ آزمائش شرط تھی تو ان کے دل کو سکون رہتا ہے۔ خوشی رہتی ہے، رنج نہیں ہوتا دکھ نہیں ہوتا پریشان نہیں ہوتے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی کی حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں۔اسے قرآن ایک انداز سے حسرت سے فرماتا ہے لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ  ’’کاش! کیا ہی اچھا ہوتالوگ یہ حقیقت مان لیتے سمجھ جاتے ‘‘،ان کے ذہن میں آجاتی ان کے دل میں بیٹھ جاتی لیکن اصل حقیقی انسانی زندگی اس سے بھی بالاتر ہے۔ آخرت کی کامیابی کو پا لینا اﷲ کے عذاب سے بچنے اور اﷲ کے انعام لینے کیلئے محنت کرنا بہت اچھی بات ہے بلکہ جنت کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَا فَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (المطففین: 6 2)  اگر انسان کو لالچ ہی کرنا ہے تو پھر کم از کم آخرت اور جنت کا کرے، دنیاکے لالچ کا کیا فائدہ ؟ اگر لالچ کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا تو پھر لالچ بھی جنت کا کرے۔

 کچھ لوگوں کو اﷲ اس سے بھی بلند حوصلے دے دیتا ہے، کچھ مبارک روحیں وہ ہوتی ہیں جو کہتی ہیں کہ اﷲ کی جنت بے مثال ہے ،اﷲ کا بہت بڑا انعام ہے۔ قرآن کریم میںا حادیث مبارکہ میں بھی جنت کی بے شمار تعریف کی گئی ہے۔ جنت کی نعمتیں لازوال، اس کی لذتیں ہمیشگی کیلئے ہوتی ہیں لیکن کچھ لوگوں کو اﷲ نے یہ شعور دیا، یہ تو فیق دی کہ وہ اﷲکے طالب ہو گئے۔ جنت کی طلب میں بھی اﷲ کی نافرمانی سے بچنابہت اچھی بات ہے چونکہ جنت اﷲ کی رضامندی کی سند ہے، اس کی رضا کا مظہر ہے۔ اُسے جنت ملے گی جس سے اﷲ راضی ہو ں گے لیکن اس سے بھی بلند ہو کر ذات ِ باری کی طلب پا لینا ہے۔

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان کا دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ:ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل مزید امتحان

آئی سی سی مینزٹی20 ورلڈ کپ میں صرف 27دن باقی رہ گئے ہیں۔کرکٹ کے ان مقابلوں میں شامل تقریباً تمام اہم ٹیمیں اپنے حتمی سکواڈز کااعلانکرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے تجربات ابھی تک ختم نہیں ہوسکے۔

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔