سن گلاسز تیز دھوپ میں آنکھوں کے محافظ

تحریر : سائرہ جبیں


آنکھیں چہرے کا حسن ہیں۔ اس حسن کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ اس ایک نعمت سے نہ صرف یہ کہ ہمیں پوری دنیا دکھائی دیتی ہے بلکہ اس دنیا کی ساری خوبصورتی بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ موسم گرما میں سورج کی برہمی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ گھر سے باہر نکلیں تو تیز دھوپ ہماری جلد کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے، سورج کی یہ شعاعیں ہماری آنکھوں کیلئے بہت زیادہ نقصاندہ ثابت ہوتی ہیں، اس لیے آنکھوں کو دھول، دھوپ اور گرد و غبار سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔

دھوپ کا چشمہ یا سن گلاسز فیشن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ماڈرن افراد کی ضرورت سمجھے جاتے ہیں۔ دھوپ کے چشموں سے متعلق اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ سن گلاسز، دھوپ میں گھر سے باہر نکلنے والے تمام افراد، مرد، خواتین اور بچوں کیلئے آلودگی اور الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچاؤ کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔

گرمیوں میں گھر سے باہر نکلنے سے پہلے سن گلاسز کا استعمال کیا جائے۔ سن گلاسز گرمیوں میں پہننا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہم فیشن میں شامل ہو جاتے ہیں بلکہ ہماری آنکھوں کی حفاظت بھی بھرپور طریقے سے ہو جاتی ہے کیونکہ یہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو روکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ الٹراوائلٹ شعاعوں سے آنکھوں کی بیماریاں جنم لیتے کا خطرہ ہوتا ہے جن سے بینائی تک جا سکتی ہے۔

سن گلاسز یا دھوپ سے بچائو کے چشمے نا صرف آنکھوں کو تیز دھوپ کے اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ آنکھوں کے ارد گرد کی حساس جلد کو بھی بچائے رکھتے ہیں۔یاد رہے سستے سن گلاسز آنکھوں کو خراب کر دیتے ہیںاس لئے ان کی کوالٹی کا ضرور خیال رکھیں اور کسی اچھی دکان سے اچھے سن گلاسز لیں ۔کچھ خواتین سن گلاسز لگاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں کہ جانے دیکھنے والوں کو کیسے لگیں مگر یاد رکھیں یہ صرف دوسرے کی سوچ کا ہی نہیں آپ کی آنکھوں کی حفاظت اورخوبصورتی کا بھی معاملہ ہے اورچند دن کے استعمال سے آپ اس کے عادی ہو جائیں گے۔ 

 دھوپ کا چشمہ وہ لیں جس کا رنگ نہ بہت گہرا ہو اور نہ بہت زیادہ ہلکا کیونکہ تیز رنگ سے دکھائی کم دے گا اور بہت ہلکے رنگ سے دھوپ سے بچاؤ کم ہو گا۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ ایسا رنگ استعمال کریں جس سے آنکھوں کو تقویت اور ٹھنڈک ملے۔

 گلاسز خریدتے وقت دھیان رکھیں کہ لینز ذرا سا بھی ٹوٹا یا کھرچا ہوا نہ ہو، نہ ہی اس پر کوئی دھبہ وغیرہ ہو، ورنہ سردرد کی شکایت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ لینز سے شکلیں ٹیڑھی میٹرھی دکھائی نہ دیں۔ آپ ا علیٰ معیار کے گلاسز خرید رہے ہیں یا نہیں یہ جاننے کیلئے چشمے کو آنکھوں سے چند سینٹی میٹر دور رکھ کر دیکھیں اور چشمے کو اوپر نیچے، دائیں بائیں حرکت دیں۔ اگر چیزیں مسخ ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو پھر کوئی اور چشمہ ٹرائی کریں اور اسے چھوڑ دیں۔فریم کو بھی ضرور دیکھیں۔ یہ خیال رکھیں کہ گلاسز کا فریم چہرے کے مطابق ہو تاکہ چہرہ خوبصورت لگے۔ پتلی اور چھوٹے چہرے والی خواتین کو بھی نازک فریم ہی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پورے چہرے پر صرف چشمہ ہی چشمہ نظر آئے۔ 

گلاسز لیتے وقت یہ بھی دھیان رکھیں کہ شیشے کے چشمے کو مشکل کام میں استعمال نہ کیا جائے کیونکہ وہ آسانی سے ٹوٹ سکتا ہے۔ پلین پلاسٹک ہلکے رہتے ہیں اورآسانی سے ٹوٹتے بھی نہیں ہیں اور یہ آنکھوں کیلئے فائدہ مند اور محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح رگڑ سے پڑنے والی خراشوں سے محفوظ پلاسٹک بھی ہوتا ہے۔ 

ہمیشہ گلا سز ایسی جگہ پر رکھیں جہاں ان کے گرنے کا اندیشہ نہ ہو۔سن گلاسز کیلئے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ انہیںدھوپ میں ہی استعمال کیا جائے بلکہ جہاں سایہ ہو وہاں بھی استعمال کریں۔آنکھوں کو تندرست رکھنے کیلئے منہ نہار دو گلاس پانی ضرور پئیں۔بوٹنگ یا سوئمنگ کرتے ہوئے بھی سن گلاسز ضرور لگائیں۔ آنکھوں جیسی نعمت اور قیمتی چیز کی حفاظت کریں۔ آنکھیں بہت بڑی نعمت ہیں۔ موسم گرما میں گھر سے باہر نکلیں تو گلاسز ضرور پہنچیں۔ گھر آنے کے بعد صاف اور ٹھنڈے پانی سے بار بار آنکھیں دھوئیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

قومی کھیل،بحالی کی نئی امیدیں

گرین شرٹس نے ایف آئی ایچ ہاکی نیشن کپ کافائنل کھیل کر دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان میں ابھی ہاکی ختم نہیں ہوئی۔ اہم بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں وکٹری سٹینڈ پر پہنچنا قومی کھیل کی بحالی کے لئے امید کی ایک نئی کرن ہے۔

44پاکستانی کرکٹرزکاٹیسٹ کیریئر1 میچ تک محدود

صرف ایک چانس کے بعد خواب ٹوٹ جانا بہت برا ،قسمت کی دیوی پھر کبھی مہربان نہ ہوسکی

عظیم شاہسوار (تیسری قسط)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنا بچپن زیادہ تر رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں گزارا۔ نبی کریم ﷺ کی محبت، شفقت اور پیار ان کو بہت زیادہ نصیب ہوا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں۔

کامیاب زندگی

نازش ایک غریب گھرانے کی ایک قابل اور سمجھدار لڑکی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی، لیکن اس نے کبھی چھوٹی چھوٹی خواہشات پر اپنے والدین کو تنگ نہ کیا۔

علم کی دولت

شاذب اسکول سے آیا تو سیدھا باورچی خانے کی طرف دوڑا اور زور سے آواز دی،’’امی! امی! آپ کدھر ہیں ؟ آپ کو کچھ بتانا ہے‘‘۔

بحیثیت مسلمان ہماری اخلاقی ذمہ داریاں

زندگی کی ہر جہت اور کردار میں ہمیں آقا کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ! لوگوں میں سے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر رشتہ دار‘‘ (صحیح مسلم)تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیالکے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘ (ابن ماجہ)