پیکرجودوسخا،سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


اسلامی تاریخ کی بے مثال اور عہد آفرین شخصیت

 آپ ؓ کا نام عثمان، کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر،لقب ذوالنورین، والد کا نام عفان، والدہ کا نام ارویٰ تھا۔آپ ؓابتدائے اسلام ہی میں ایمان لے آئے تھے، آپ ؓان حضرات میں سے ہیں جن کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسلام کی دعوت دی۔ آپؓ نے اسلام کیلئے دوبار ہجرت کی۔ پہلی ہجرت حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ طیبہ کی جانب۔آپ کی شادی قبل نبوت، رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ سے ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت رقیہ ؓکے انتقال کے بعد آپؓ کی شادی اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم ؓسے فرمادی۔ سوائے حضرت عثمان غنی ؓ کے اور کسی شخص کو یہ فخر حاصل نہیں کہ یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو بیٹیاں عقد میں آئی ہوں ،اسی مناسبت سے آپ کا لقب ذوالنورین تھا۔ آپؓ اوّل مہاجرین اور عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپؓ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن شریف جمع کیا ۔

 قبول اسلام اور مصائب و آلام:حضرت عثمان غنی ؓکی عمر کا چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدا بلند ہوئی۔حضرت ابو بکر صدیقؓ ؓکی دعوت پر آپ ؓاسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔ سرور کائناتﷺ نے حضرت عثمان ؓکو دیکھ کر فرمایا ’’عثمان ؓ! خدا کی جنت قبول کر‘‘ میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔ حضرت عثمان ؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میںبے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا۔ (اصابہ، جلد 8، تذکرہ سعدی بنت کریز)

حضرت عثمان غنی ؓکے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ ؓکے چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو پکڑ کر ایک کمرے میں بند کردیا اور کہا کہ جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا ۔ یہ سن کو حضرت عثمان غنی ؓنے فرمایا، چچا! خدا کی قسم میں مذہب اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ (سیر الصحابۃ، ج1، ص152 )

 ہجرت ِحبشہ وہجرت ِمدینہ:مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کا غیظ وغضب  بڑھ رہا تھا۔حضرت عثمان غنی  ؓبھی عام مسلمانوں کی طرح جفاکاروںکے ظلم وستم کا نشانہ بنے۔ بالآخر خود آنحضرتﷺ کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت رقیہ ؓکے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق وصداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلا وطن ہوا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ اس میری امت میں عثمان ؓ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا‘‘(اصابہ، جلد8، تذکرہ رقیہ)۔حضرت عثمان غنی  ؓاس ملک میں چند سال رہے پھر اپنے وطن مکہ واپس آگئے۔بعد میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہوگیا اور نبی کریمﷺ نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ایماء فرمایا تو حضرت عثمان غنیؓبھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے ۔

بطور خلیفہ انتخاب:حضرت عمرفاروق ؓ نے زخمی ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہؓ ، اوس بن ثابتؓ اور حضرت مقداد بن الاسود ؓکو ہدایت کی کہ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کو ایک مکان میں جمع کرنا اور کسی کو ان کے پاس آنے جانے نہ دینا۔ تین روز کے اندر باتفاق رائے اپنے میں سے کسی کو خلیفہ بنالیں، اگر اختلاف ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے۔ یوں صحابہ کرام ؓ کی باہمی مشاورت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ 

نظام خلافت:اسلامی حکومت کی ابتداء شوریٰ سے ہوئی، حضرت عمر فاروق ؓنے اسے مکمل اور منظم کیا۔ حضرت عثمان غنی ؓنے بھی اس نظام کو اپنے ابتدائی عہد میں قائم رکھا لیکن آخرمیں بنو امیہ کے استیلاء نے اس میں برہمی پیدا کر دی۔ تاہم جب کبھی آپؓ کی کسی معاملہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تو آپؓ فوراً اس کے تدارک کی سعی ضرور کرتے، نیک مشوروں کو قبول کرنے میں تامل نہ فرماتے۔ 

حکام کی نگرانی:خلیفہ وقت کا سب سے اہم فرض حکام اورعمال کی نگرانی ہے ۔حضرت عثمان غنیؓاگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے، تحمل، بردباری اور چشم پوشی آپؓ کا شیوہ تھا، لیکن ملکی معاملات میں انہوں نے احتساب اور نکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا۔ سعد بن ابی وقاصؓ نے بیت المال سے رقم ادھار لی جسے وہ واپس نہ کر سکے۔ حضرت عثمان غنیؓ ؓنے سختی سے باز پرس کی اور معزول کردیا۔ نگرانی کا عام طریقہ یہ تھا کہ دریافت حال کیلئے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفودروانہ کئے جاتے تھے ،جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے۔  

ملکی نظم ونسق:فاروق اعظم ؓ نے ملکی نظم ونسق کا جودستوار العمل مرتب کیا تھا۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے اس کو بعیٖنہ باقی رکھا اور مختلف شعبوں کے جس قدر محکمے قائم ہوچکے تھے، ان کو منظم کرکے ترقی دی۔ یہ اسی نظم ونسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ حضرت عمر فاروق ؓکے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا، لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔

ملکی انتظام اور رعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے اس امر کی ضرورت تھی کہ دارالخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اور آرام دہ بنایا جائے، چنانچہ حضرت عثمان غنی ؓ نے مدینہ کے راستہ میں جگہ جگہ پر چوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار کروائے۔ اس کے ساتھ مختصر بازار بھی بسایا گیا، نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا۔

بند مہزور:خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا ،جس سے شہر کی آبادی اورمسجد نبوی ﷺکو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا تھا ۔اس لئے حضرت عثمان غنیؓ نے مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوا کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ اس بند کا نام ’’بند مہزور‘‘ ہے ۔رفاہ عامہ کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ 

مسجد نبویﷺکی تعمیر وتوسیع:مسجد نبوی ﷺ  کی تعمیر میں حضرت عثمان ذوالنورین ؓکا کردار نمایاں ہے۔ عہد نبویﷺ  میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کیلئے حضرت عثمان غنی ؓ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش کیا تھا۔ 24 ھ میں توسیع کا ارادہ کیا لیکن مسجد کے گرد وپیش میںمکانات تھے اور لوگ انہیں چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ پانچ سال اس کشمکش میں گزر گئے۔ بالآخر 29ھ میں حضرت عثمان غنیؓ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی موثر تقریر فرمائی اور نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی۔ اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات دے دئیے۔ 

فوجی انتظامات:حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد میں جس اصول پر فوجی نظام قائم کیا تھا، حضرت عثمان غنی ؓ نے اسے ترقی دی۔ تمام صدر مقامات میں علیحدہ مستقل افسروں کے ماتحت کر دیا۔ اس عہد کے مکمل فوجی نظام کا اندازہ اس سے ہو سکتاہے کہ امیر معاویہ ؓ شام میں رومیوں کے مقابلہ کیلئے فوجی کمک کی ضرورت ہوئی تو ایران اور آرمینیہ کی فوجیں نہایت عجلت کے ساتھ بروقت پہنچ گئیں۔ 

مذہبی خدمات:نائب رسول اللہﷺکا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت و تبلیغ تھا۔اس لئے حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو اس فرض کے انجام دینے کا ہر لحظہ خیال رہتا، چنانچہ جہاد میں جو قیدی گرفتار ہوکر آتے ان کے سامنے خود اسلام کے محاسن بیان کرکے ان کو دین متین کی طرف دعوت دیتے تھے۔ حضرت عثمان ؓخود بالمشافہ مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور عملاً اس کی تعلیم دیتے تھے۔

حضرت عثمان غنی ؓ کا سب سے زیادہ روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و  تحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے۔ اختلاف قرأت پر حضرت حذیفہؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان غنیؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ سے عہد صدیقی کا مرتب و مدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہم سے اس کی نقلیں کراکے تمام ممالک میں اس کی اشاعت کی، اور ان تمام مختلف مصاحف کو جنہیں لوگوں نے بطور خود مختلف املائوں سے لکھا تھا، صفحہ ہستی سے معدوم کردیا۔

شہادت کی تیاری:باغیوں کے محاصرہ کو چالیس دن گزر گئے تھے۔ آپؓ تک سامان خورونوش پہنچانا مشکل تھا۔ جس دن شہادت کا واقعہ پیش آیا وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپؓ نے روزہ رکھاہوا تھا۔ اس حالت میں نیند کا غلبہ ہوگیا۔ سوکر اٹھے تو اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ رسول اللہﷺ ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما تشریف فرماہیں اور مجھے کہہ رہے ہیں عثمانؓ جلدی کرو، ہم تمہارے ساتھ افطار کے منتظر ہیں۔آپؓ کے گھر میں بیس غلام موجود تھے۔ ان سب کو آزاد کر دیا اور تلاوت قرآن پاک میں مصروف ہوگئے۔اسی دوران باغیوں نے گھر میں گھس کر آپ پر حملہ کر کے آپ کو شہید کر دیا۔یہ عظیم حادثہ جمعہ کے دن عصر ومغرب کے درمیان 18 ذی الحجہ 35ھ کو پیش آیا۔

خلافت عثمانی کی عظیم  فتوحات

عہد عثمانی میں ممالک محروسہ کا دائرہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، رقہ اور مراکش مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کو پہنچی ۔ایران کے متصلہ ملکوں میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔ دوسری سمت آرمینیہ اور آذربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔بحری فتوحات کا آغازبھی حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت سے ہوا، حضرت عمرفاروقؓ کی احتیاط نے مسلمانوں کو سمندری خطرات میںڈالنا پسند نہ کیا۔ ذوالنورینؓکی اولوالعزمی نے خطرات سے بے پرواہ ہوکر ایک عظیم الشان بیڑا تیار کرکے جزیرہ قبرص (سائپرس) پر اسلامی عَلَم بلند کیا اور بحری جنگ میں قیصر روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے شکست دی ۔

فتح طرابلس:مہم طرابلس کا اہتمام تو 25ھ میں ہوا لیکن باقاعدہ فوج کشی 27ھ میں ہوئی۔ عبداللہ بن ابی سرح ؓگورنر مصر تھے، حضرت عثمانؓ نے دارالخلافہ سے بھی ایک لشکر جرار کمک کیلئے روانہ کیا ،جن میں عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ اسلامی فوجیں مدت تک طرابلس کے میدان میں معرکہ آراء رہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کی شجاعت، جان بازی اور ثبات واستقلال کے آگے اہل طرابلس کے پائوں اکھڑ گئے۔  

فتح افریقہ:افریقہ سے مراد وہ علاقے ہیں جن کو اب الجزائر اور مراکش کہا جاتا ہے ۔یہ ممالک 26ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی ہمت وشجاعت اور حسن تدبیر سے فتح ہوئے۔ 

سپین پر حملہ:افریقہ کے بعد سپین کی فتح کا دروازہ کھلا۔27ھ میں حضرت عثمانؓنے اسلامی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، عبداللہ بن نافع بن عبدقیس ؓ اور عبداللہ بن نافع بن حصینؓ کو اس مہم کیلئے نامزد کیا، جنہوں نے کچھ فتوحات حاصل کیں لیکن پھر مہم روک دی گئی۔

فتح قبرص:قبرص جس کو اب سائپرس کہتے ہیں بحرروم میں شام کے قریب ایک نہایت زرخیز جزیرہ ہے اور یورپ اور روم کی طرف سے مصر وشام کی فتح کا دروازہ بھی۔ مصر وشام کی حفاظت اس وقت تک نہیں ہوسکتی ،جب تک یہ بحری ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو۔عبداللہ بن قیسؓ کی زیر قیادت اسلامی بحری بیڑہ قبرص پر حملہ کیلئے روانہ ہوا اور صحیح وسلامت قبرص پہنچ کر لنگر انداز ہوااور اہل قبرص کو مغلوب کرلیا۔ 

ایک عظیم الشان بحری جنگ:31 ھ میں قیصر روم نے ایک عظیم الشان جنگی بیڑا ،جس میں تقریباً پانچ سو جہاز تھے سواحل شام پر حملہ کیلئے بھیجا۔ امیر البحر عبداللہ بن ابی سرحؓ نے مدافعت کیلئے اسلامی بیڑے کو آگے بڑھایا اور سطح سمندر پر دونوں آمنے سامنے آگئے۔ مسلمانوں نے اپنے تمام جہاز ایک دوسرے سے باندھ دئیے اور فریقین میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کے استقلال وشجاعت سے رومیوں کے پاؤں اکھڑگئے اور اسلامی بیڑہ مظفر ومنصور اپنی بندرگاہ میں واپس آیا۔

متفرق فتوحات:قبرص، طرابلس اور طبرستان کے علاوہ حضرت عثمان ؓکے عہد میں اور بھی فتوحات ہوئیں31 ھ میں خبیب بن مسلمہ فہری نے آرمینیہ کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں شامل کرلیا۔

فضائل احادیث کی روشنی میں 

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت عثمانؓجب آتے تو رسول اکرمؓ  اپنے لباس مبارکہ کو ٹھیک کرلیتے تھے اور فرماتے کہ ’’میں اس سے کس طرح شرم نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں‘‘(صحیح مسلم، المناقب،رقم 2401)۔

امام ترمذیؒ نے عبدالرحمن بن خباب ؓکی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ جیش عسرۃ کی تیاری کیلئے صحابہ کرام کو ترغیب دے رہے تھے میں بھی وہاں موجود تھا۔ حضرت عثمان ابن عفان ؓنے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں سو اونٹ مع پالان اور سامان اپنے ذمہ لیتا ہوں، (اللہ کیلئے سو اونٹ مع سازو سامان پیش کرتا ہوں)۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پھر ترغیب دی۔ حضرت عثمان ؓنے عرض کیا یارسول اللہ! میں دو سو اونٹ اور سازو سامان اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ حضورﷺ  نے پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ترغیب دی تو آپ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ !میرے ذمہ تین سو اونٹ مع پالان اور سامان کے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ منبر سے نیچے اترآئے اور فرمایا کہ عثمان ؓ کے جرم وگناہ ان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔(ترمذی، المناقب، رقم370)

امام ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ نے فتنوں کی بابت ارشاد فرمایا اور حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ایک فتنہ میں یہ بھی مظلوم شہید ہوں گے۔ (ایضاً، رقم3708، ص 1414)

حاکم نے حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت کی ہے کہ حضرت عثمانؓنے دو مرتبہ جنت خریدی ہے، ایک مرتبہ تو بیئررومہ خرید کر، دوسری مرتبہ جیش عسرہ کو سازو سامان فراہم کرکے۔

ابن عساکر نے ابو ہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ میں مجھ سے مشابہ عثمان ؓ ہیں۔ طبرانی نے عصمہ بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہﷺ کی دوسری صاحبزادی ام کلثوم ؓ (زوجہ حضرت عثمانؓ ) کا بھی انتقال ہوگیا، تو رسول اللہﷺنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ عثمان ؓ کا نکاح کسی سے کردو، اگر میری تیسری بیٹی موجود ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی عثمان ؓ سے کردیتا کہ میں نے ان کے نکاح پہلے بھی وحی الہٰی پرکئے تھے۔(الطبرانی فی الکبیر، 17/490)

حضرت زید بن ثابتؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :کہ میرے پاس سے جب حضرت عثمان ؓ گزرے تو ایک فرشتہ میرے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے کہا :یہ شہید ہیں، ان کو قوم شہید کردے گی، مجھے ان سے شرم آتی ہے۔

امام حسین ؓ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے آپؓ سے حضرت عثمان ؓکی حیا کے بارے میں دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ اگر آپؓ کبھی نہانے کا قصد کرتے تو گھر میں کواڑ بند کرکے بھی، کپڑے اتارنے میں اس قدر شرم فرماتے تھے، کہ اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کرتے تھے۔(تاریخ الخلفاء، ص 338تا340)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔