صوبائی حکومت کا ایجنڈا،عملدرآمد کب ہو گا؟
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمانی جماعت کے طور پر شناخت مل گئی ہے اوروہ مخصوص نشستیں جو الیکشن کمیشن کی جانب سے دیگر جماعتوں کو بانٹ دی گئی تھیں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد وہ بھی جلد پی ٹی آئی کو حاصل ہوجانے کی توقع ہے ۔
یہ پی ٹی آئی کی ایک بڑی کامیابی ہے، جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسے خیبرپختونخوا میں ہواہے جہاں اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے ۔بھاری اکثریت کے ساتھ مسلسل تیسری بار خیبرپختونخوا میں حکومت بنانا کسی بھی جماعت کیلئے قابلِ ستائش ہے لیکن اس کے ساتھ اس جماعت پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ جن عوام نے اسے مسلسل تیسری بار منتخب کیا ہے ان کی فلاح وبہبود اور صوبے کی تعمیر وترقی پر توجہ دی جائے۔ مگر صوبائی حکومت کی طرف سے ایسے فیصلے کئے جارہے ہیں جن سے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں بلکہ عوام میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ سرکاری سکولوں کو عوامی شراکت داری کے تحت چلایاجائے گا۔اپوزیشن کی جانب سے ایسے کسی بھی فیصلے کو احمقانہ قراردیاگیا ہے ۔اے این پی نے عندیہ دیا ہے کہ اگر صوبائی حکومت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ نہ صرف احتجاج کرے گی بلکہ ضرورت پڑنے پر عدالت سے بھی رجوع کیاجائے گا۔ جامعات کی اراضی کی فروخت کے معاملے پر بھی اپوزیشن جماعتوں اور عوام نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ صوبائی حکومت کو ان معاملات کو دیکھ بھال کر چلنا ہوگا۔یہ خدشہ ظاہر کیاجارہاتھا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو وفاق کے مدمقابل لایاگیا ہے لیکن یہ خدشات اب بہت حد تک زائل ہوتے نظرآرہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور سابق وزیراعلیٰ محمود خان سے زیادہ نرم ثابت ہورہے ہیں۔ شروع میں ان کا لہجہ سخت تھا لیکن اب بتدریج ٹھہراؤ آ رہا ہے۔اگرچہ وہ ابھی بھی وفاق کو للکارتے ہیں مگرا ن کے لہجے میں وہ گھن گرج نہیں ۔صرف یہی نہیں ، وہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی اُن شخصیات کے ساتھ بھی بیٹھ گئے جن کے بارے پی ٹی آئی کے ورکروں نے سوچابھی نہیں تھا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت قدم ہے ۔اس صوبے کے چیف ایگزیکٹو کیلئے سیاسی حالات قدرے نارمل ہیں ،اپوزیشن موجود تو ہے لیکن اس کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے، صوبائی حکومت بآسانی قانون سازی کرسکتی ہے اور کربھی رہی ہے، لیکن ابھی تک موجودہ حکومت کی طرف سے کوئی قابل ذکر قدم نظرنہیں آیا۔حکومت سازی کے کئی ماہ گزرجانے کے بعد اب کہیں جاکر وزیراعلیٰ کی جانب سے بیوروکریسی کو اپنی حکومت کے اقدامات کیلئے گائیڈ لائنز دی گئی ہیں۔ انتظامی افسروں کا اجلاس بلا کر وزیراعلیٰ نے انہیں گڈ گورننس کا ایجنڈا دیا ہے اور صوبائی حکومت کی پالیسی کے تحت ڈپٹی کمشنرز کو ٹائم لائن کے ساتھ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کیلئے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو مالی اختیارات بھی سونپ دیئے گئے ہیں۔سرکاری افسروں کو دیئے گئے گیارہ نکاتی ایجنڈے میں صفائی کی صورتحال بہتر بنانے،عوامی سہولیات، ریونیو کے معاملات، پبلک سروس ڈیلیوری، کوالٹی کنٹرول اوراشیائے خورونوش کی قیمتیں کنٹرول کرنا شامل ہے ۔یہ وہ نکات ہیں جن کا تعلق عام آدمی کی روزمرہ زندگی سے ہے۔ اگران نکات پر عمل کر لیاجائے تو مہنگائی اور بدامنی کے ستائے شہریوں کو ریلیف مل سکتا ہے ۔
ایک بڑا مسئلہ سرکاری دفاتر میں خالی اسامیوں کا بھی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے کام لٹکے رہتے ہیں۔ سرکاری اسامیوں کو بھی بھرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ اسامیاں سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر میرٹ پر دی جائیں ۔خیبرپختونخوا میں پرویزخٹک کے دور ِحکومت میں اراضی کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کافیصلہ کیاگیا لیکن ہنوز دلی دوراست کے مصداق مختلف اضلاع میں یہ پراجیکٹ آج تک پورا نہیں کیاجاسکا۔ اور تو اور صوبائی دارلحکومت پشاور میں ابھی تک پٹواریوں کی بادشاہت چلی آرہی ہے۔یہ تمام نکات قابل غور ہیں اور جس طریقے سے صوبائی حکومت نے ان پر عملدرآمد کی ہدایات جاری کی ہیں یہ خوش آئند ہے۔ لیکن ہردور میں ایسی ہدایات اور پالیسی جاری تو کی جاتی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ پرویز خٹک دورِ حکومت میں بے تحاشا قانون سازی کی گئی، صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے سرکاری افسروں کو ڈرایادھمکایا بھی گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلنے لگے۔ محمود خان دور میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔بہت سے قوانین بنائے گئے لیکن ان کا نفاذ اور عملدرآمد آج تک نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اب بھی اپنے کاموں کیلئے سرکاری محکموں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام تو ہے لیکن فنڈز نہ ہونے کے باعث یہ مفلوج ہے۔ بلدیاتی نظام کا مقصد تھا اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔وزیراعلیٰ کی جانب سے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں مالی اختیارات کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز کو دیئے گئے ہیں۔ یہی مالی اختیارات ان ناظمین کو بھی دیئے جاسکتے تھے جنہیں عوام نے اپنے لیے چنا تھا ۔ مالی اختیارات انتظامی افسروں کوسونپنے کے بعد ناظمین دوبارہ انہی سرکاری افسروں کے تابع ہوگئے ہیں اور ترقیاتی کاموں یا کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں انہیں ایک بارپھر انہی افسروں کے دروازوں کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس گزشتہ دس بارہ سالوں سے یہ سنہری موقع تھا کہ اپنے منشور کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بناتی ،بلدیاتی نظام کو مضبوط کرتی لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔قوانین میں مسلسل ترامیم نے ان کاحلیہ بگاڑ دیا ہے ۔اب صرف ایک آئینی شرط پوری کرنے کیلئے بلدیاتی نظام نافذ تو کیاگیا ہے لیکن عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
ادھر سیاسی گہماگہمی سے ہٹ کر خیبرپختونخوا کوایک اورمشکل کا سامنا ہے اور وہ ہے ہرسال کی طرح اس سال بھی سیلابوں کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔اس کی ابتدا چترال سے ہو بھی چکی ہے ۔ لوئر چترال کے علاقوں میں سیلابوں سے شدید تباہی ہوئی ہے۔ ضلع چترال ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہے ۔گزشتہ ایک عشرے کے دوران یہاں بڑے پیمانے پر جانی ومالی تباہی ہوئی ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی صوبائی حکومت اورنہ ہی وفاقی حکومت کے ایجنڈے پر کہیں ہے ۔دیگر سیاحتی مقامات بھی سیلاب کے خطرے سے دوچار ہیں ۔کاغان میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں سیاح پھنس گئے ۔ چند سال قبل وادی سوات میں سیلاب سے شدید تباہی ہوئی تھی۔ سوات میں دریا کی گزر گاہ کوتنگ کردیاگیاتھا ،تجاوزات کی بھرمار تھی اور دریا کے اندر ہوٹل بنادیئے گئے تھے۔ فطرت کے ساتھ اس چھیڑ خانی کے باعث یہاں شدید سیلاب آیا۔پاک فوج کی بروقت کارروائی سے اگرچہ قیمتی جانیں بچ گئیں لیکن مالی نقصان بہت بڑے پیمانے پر ہوا۔ہمیشہ کی طرح تحقیقات شروع ہوئیں، رپورٹیں بنائی گئیں،صوبائی حکومت کو سفارشات پیش کی گئیں لیکن یہ سفارشات کسی شیلف کی نظرہوگئیں ۔سیاحتی مقامات پر اب بھی تجاوزات ایک بڑامسئلہ ہیں جس سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی حکومت سنجیدگی سے اقدامات نہیں کررہی ہے ۔