یوم تحفظ ختم نبوتﷺ

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ مقبولہ شاہدودالّ ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ تاویل و تخصیص کرنے والا قرآن مجیدکی تکذیب کرتا ہے۔

چودہ صدیوں سے امتِ محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ اسلام کی پوری تاریخ میں جب بھی کسی سر پھرے، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرات کی، مسلمانوں نے اس کا مقابلہ میدان جہاد میں کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا۔ اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اسلام نے مرتد کیلئے مقررکی ہے۔ 

برصغیر میں 19ویں صدی کے آخر میں انگریز حکومت کی سرپرستی میں مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے محدث، مجدّد، مثیلِ مسیح، مسیح موعود اور پھر نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اہل اسلام میں اس بارے میں بڑی تشویش پائی جاتی تھی کہ مرزائی اور قادیانی اس نوزائیدہ مملکتِ خداداد کو کہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ اسی تحریک کا نقطہ عروج 1974ء کی تحریک ختم نبوت تھی، جس میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے (37) ممبران کی طرف سے قرارداد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے 30جون 1974ء کو پیش کی۔ اس قرارداد کے بعد وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیا اور کچھ ممبران پر مشتمل رہبرکمیٹی بنائی گئی۔ قومی اسمبلی کے مسلسل اجلاس کے دوران مرزا ناصر کو صفائی اور سوالات کے جوابات کا پورا موقع دیا گیا لیکن مرزا ناصر (180) سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ دے سکا۔ بالآخر7ستمبر1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے یہ بل پاس کیا۔ پاکستان وہ واحد خوش بخت اسلامی ملک بنا جس نے منکرین ختم نبوت قادیانیوں کوسب سے پہلے سرکاری سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔اب اختصارکے ساتھ ختم نبوت پردلالت کرنے والی آیات و احادیث و آثار اور دوسرے نقلی و عقلی دلائل کو ذکرکیا جاتا ہے۔ 

آیات قرآنیہ

 ختم نبوت پردلالت کرنے والی چند  آیات مبارکہ حسب ذیل ہیں:(1) ’’محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘ (الاحزاب:40)۔ (2) ’’آپﷺ کو سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا‘‘ (الاعراف: 158)۔(3)تمام لوگوں کیلئے بشیر و نذیر بنایا گیا‘‘(سبا:22)۔ (4) ’’اور ہر جہان کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں‘‘ (الانبیاء: 107)۔(5) اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ جب حضورِ اکرم ﷺ کی تشریف آوَری ہو تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں (آل عمران:81)، ان کے بعد کسی نبی پر ایمان و مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا۔ (6) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تورات کی تصدیق کی اور رسولِ کریمﷺ کی آمد کی بِشارت دی(الصف:6)، جبکہ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی بشارت نہیں دی۔

آپﷺ کے لائے ہوئے دین کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جائے تو قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا دین کامل کر دیا‘‘ (المائدہ: 3) یعنی یہ پچھلے دینوں کی طرح منسوخ نہ ہو گا بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔

احادیث مبارکہ

حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ کتب احادیث میں کثرت سے ملتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے گھر تعمیرکیا اور اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور خوش ہونے لگے اور کہنے لگے! یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی۔ (پھر) آپﷺ نے فرمایا: ’’پس میں وہی آخری اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں‘‘ (صحیح بخاری: 3342)  مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺنے ختم نبوت کو ایک بلیغ مثال کے ذریعے واضح فرمایا ہے۔ 

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے ہیں اور میرے لیے (ساری) زمین پاک کر دی گئی اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔(صحیح مسلم:523)

جھوٹے داعیانِ نبوت

 حدیث مبارکہ کی نظرمیں

 ذیل میں ان چنداحادیث مبارکہ کوذکرکیاجاتاہے جن میں جھوٹے مدعیان نبوت کاتذکرہ ملتاہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک وقوع پذیر نہیں ہو گی جب تک تیس کے قریب دجال کذاب نہ پیدا ہو جائیں، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے‘‘(صحیح بخاری:4313)۔ حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘(جامع ترمذی: 2219)۔ حضرت حذیفہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں ستائیس جھوٹے اور دجال پیدا ہوں گے، ان میں سے چار عورتیں ہوں گی ،سن لو !میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘(مسنداحمد:23406)۔

حضور نبی اکرمﷺ کی بعثت کے ساتھ بابِ نبوت مسدود ہو چکا ،اس لیے اب کسی شخص کے منصبِ نبوت پر متمکن کیے جانے کی کوئی گنجائش نہ رہی چنانچہ اب اگر کوئی شخص نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتا ہے تو حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ دجال، کذاب اور جھوٹا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ نے نہ صرف اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں پیشگی اطلاع دے دی بلکہ آپﷺ نے تو ان کی تعداد کا تعین بھی فرما دیا۔ ان احادیث مبارکہ میں صاحبِ قرآن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد جھوٹے مدعیانِ نبوت کی خبر دیتے ہوئے واضح فرما دیا کہ خاتم النبیین کا معنیٰ نہ تو مہر ہے اور نہ ہی انگوٹھی بلکہ اس کا معنیٰ آخری نبی ہے۔ خاتم النبیین کی تفسیر لا نبی بعدی کے ذریعے فرما دی۔

جلیل القدرصحابہ کرام کانبی نہ ہونا

ذیل میں ذخیرہ احادیث میں سے چندایک احادیث مبارکہ ذکرکی جائیں گی جس سے معلوم ہوتاہے کہ عظیم المرتب صحابہ کرامؓ میں سے کوئی صحابیؓ بھی نبوت کاحامل نہیں۔ اس لیے کہ باب نبوت عطیہ خداوندی حضورﷺپرختم ہوچکاہے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓبیان کرتے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اگر میرے بعد کو ئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطابؓ ہوتے(جامع ترمذی: 3686)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ؓہے(صحیح بخاری: 3486، 3282) ۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں حضرت عمر ؓ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا بھی بیان ہے۔ سیدنا عمر فاروق ؓکو منصبِ نبوت نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

 حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غزوہ تبوک کے مو قع پر حضرت علی ؓ کو مدینہ میں چھوڑ دیا۔ حضرت علی ؓ نے (بطور نیاز مندانہ شکایت کے) عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی (یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے پاس اپنا نائب بنا کر چھوڑ گئے تھے ،اسی طرح سے تم اس وقت میرے نائب ہو) البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا (اس لیے تمہارا مرتبہ اگرچہ ہارون علیہ السلام کا سا ہے مگر تمہیں نبوت حاصل نہیں)(صحیح بخاری: 4154)۔

اس حدیث مبارکہ میں حضرت علی ؓ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور ان کا درجہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے نزدیک اس درجے کے مماثل قرار دیا ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھا۔ صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ حضرت ہارون علیہ السلام ایک نبی تھے اس لیے کسی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا تھا کہ شاید حضرت علیؓ بھی نبی ہوں۔ اس مغالطہ کے ازالہ کیلئے آپﷺ نے واضح فرما دیا کہ حضرت علی المرتضی ؓنبی کے درجہ کے برابر درجہ رکھنے کے باوجود نبی نہیں کیونکہ نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

نبوت نہیں خلافت

نبی کریمﷺنے واضح طورپرفرمایاکہ اب میرے بعدنبوت نہیں بلکہ خلافت ہو گی۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  (پہلے زمانے میں) بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کیا کرتے تھے، جب ایک نبی وصال فرما جاتا تو اللہ پاک دوسرا نبی مبعوث فرما دیتے (پھر میری بعثت ہو گئی) میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہو گا (چونکہ میں آخری نبی ہوں لہٰذا میرے بعد) اب (میرے) خلفاء ہوں گے جو بکثرت ہوں گے۔(صحیح بخاری:3268)

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ پہلے زمانے میں لوگوں کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قائم کردہ اجراء نبوت کا نظام جو حضرت آدم علیہ السلام سے جاری ہوا تھا، وہ نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔اب اُمتِ مسلمہ میں لوگوں کی رہنمائی کیلئے قیامت تک خلافت و نیابتِ محمدیﷺ کا نظام روبہ عمل ہے۔اب قیامت تک اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے دین مکمل کر دیا اور اجرائے نبوت کا نظام ختم کر کے اس کی جگہ نبوت محمدیﷺ کی خلافت و نیابت کا نظام جاری فرما دیا ہے۔ لہٰذا اب کسی نئے نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں رہی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مصطفیٰ زیدی منفرد اسلوب کا شاعر

مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میںبے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔

سوء ادب :ہمارے جانور شیر

یہ جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن جب سے ن لیگ نے اسے اپنے انتخابی نشان کے طور پر اپنایا ہے، اِس کا دماغ مزید خراب ہو گیا ہے اور وہ کسی کی پرو ا ہی نہیں کرتا۔

قومی یکجہتی میں ادب کا کردار

ہر ادب، ادیب کے ایک نظریئے کے تحت پیدا ہوتا ہے اور ادیب ایک معاشرے کا جزو ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ایک نظریۂ حیات ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ادیبوں اور ان کی تخلیقات یعنی ادب میں جہت اور سمت کا تعین اس اجتماعی شعور یا نظریئے سے پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست

پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملتان ٹیسٹ میں بننے والے منفرد ریکارڈز

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کیخلاف پاکستان کے متعدد نئے ریکارڈ بنے، جو درج ذیل ہیں۔

چھوٹا پھول

ایک باغ میں بہت سے پودے اور درخت تھے، جن پر ہر طرح کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ وہ باغ بہت بڑا تھا۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی خوشبو باغ کو خوبصورت بنائے ہوئے تھی۔ ایک دفعہ گلاب کے بہت سے پھول کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پھول آیا اور کہنے لگا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتا ہوں‘‘۔