محسن انسانیت ﷺ

تحریر : مولانا مجیب الرحمن انقلابی


اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کو تمام جہاں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ ’’رحمتہ للعالمین‘‘ ﷺ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گمراہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑھے میں گری ہوئی تھی۔ انساینت نام کی کوئی چیز نہ تھی، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا

 عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا، ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کی جاتی حتیٰ کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کیلئے 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بجائے اس پر فخر کیا جاتا تھا، شراب نوشی اور قمار بازی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ حسب و نسب پر تفاخر کیا جاتا، انتقام و کینہ وری کو وصف و خوبی سمجھا جاتا، بغض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی، بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھا یا جاتا، ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو کمتر اور ذلیل سمجھتا، سودی لین دین عام تھا، معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔

ان حالات میں جبکہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدس ﷺ دنیا میں ’’رحمت للعالمین‘‘ بن کر تشریف لاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہونے لگی۔ آپ ﷺ کی  تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا ہے۔

آپ ﷺ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے کامل نمونہ ہیں اور آپ ﷺ کے ’’اسوہ حسنہ‘‘ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کو مضمر کر دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ ’’ابر رحمت‘‘ بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفروشرک اور ضلالت و گمراہی کے ’’گھٹا ٹوپ‘‘ اندھیروں سے نکال کر ’’توحید و رسالت‘‘ کی روشنی سے منور کیا۔ آپ ﷺ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔

 اس کا نقشہ حضرت جعفر طیارؓ نے شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں ان الفاظ میں کھینچا ’’ اے بادشاہ سلامت! ہم بے دین اور کم علم تھے، بتوں کی پرستش کرتے، مردار کھاتے، بے حیائی کے دلدادہ تھے، اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے، ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتے تھے، ہم میں سے طاقتور کمزور پرستم کیا کرتا تھا، ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی، مہمانداری کا نام و نشان نہ تھا، کوئی قاعدہ قانون نہ تھا۔ اچانک ہم میں سے ایک پاکیزہ انسان کو اللہ رب العزت نے آخری پیغمبر ﷺ بنا کر مبعوث فرمایا۔ جس کے حسب و نسب، سچائی، امانت و دیانتداری، پاکدامنی، تقویٰ و طہارت، ہمدردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے تھے۔ آپﷺنے ہمیں بتایا کہ سب کا پروردگار ایک اللہ ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے۔ وہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے، نفع و نقصان اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بت کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب کی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائی ہیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو، اپنا وعدہ پورا کیا کرو، حرام باتوں سے بچو! خون ریزی اور یتیم کا مال کھانے سے دور رہو، کسی کا ناحق مال نہ کھائو، اسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا۔ ہم سب ان پر ایمان لائے اور ان کی اتباع کرتے ہوئے ان پر دل و جان سے فدا ہوئے۔ 

محسن انسانیت ﷺ ’’اعلانِ نبوت‘‘ سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ لوگ آپ ﷺ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے۔ جب محسن انسانیتﷺ نے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے انہیں بتوں کی پرستش ترک کر کے ایک خدا کی عبادت کرنے اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپ ﷺ کی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی ،وہی آپ ﷺ کے خلاف ہو گئی۔ پھر آپ ﷺ کے راستہ میں کانٹے بچھائے جانے لگے، آپ ﷺ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایا جاتا۔ طائف کے میدانوں میں آپ ﷺ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھر مار مار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے۔ اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ محسن انسانیت ﷺ سے سوال کیا کہ کیا آپ ﷺ پر احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی۔

دعوت توحید دینے کی پاداش میںآپ ﷺ کو مجنون دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرام ؓکو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کو احد کے میدان میں زخمی کیا گیا آپ کے دندان مبارک شہید کیے گئے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ اور یاسرؓ و عمارؓ سمیت دیگر صحابہ کرام ؓ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجودمحسن انسانیت ﷺ نے کبھی ان ظالموں کیلئے بد دعا نہیں کی بلکہ ہدایت کیلئے ہی دعا کی۔ 

ان حالات میں بھی محسن انسانیت ﷺ اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں، مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہا کر دی تو آپ ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ 

پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب محسن انسانیت ﷺ اپنے لشکرکے ہمراہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے۔ لیکن یہ کیسا فاتح ہے، نہ تو قتل عام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی فتح کا جشن منایا جا رہا ہے۔ آج انتقام، فتح کا نشہ اور تکبر و غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ محسن انسانیت ﷺ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے۔ مکہ سے نکالنے والے خوفزدہ ہیں کہ حضور ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے آپ ﷺ کے راستہ میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے۔ وہ بھی تھے جنھوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کے جسم اطہر کو لہولہان کیا تھا۔ وہ بھی تھے کہ جنھوں نے آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ پر ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے تھے۔ آج یہ سب بارگاہ رسالت ﷺ میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔ 

محسن انسانیتﷺ نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی ’’رحم طلب صدا‘‘ گونجی ۔ محسن انسانیت ﷺ نے سب کیلئے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جائو تم سب آزاد ہو۔ حضور ﷺ نے عام اعلان فرما دیا کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہو گا اس کو بھی امان ہے اور جو شخص حضرت ابو سفیان ؓکے گھر داخل ہو گیا اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر رکھے گا اس کی بھی جان بخشی اور امان ہے اور جو شخص بغیر ہتھیار کے ملے گا اس کیلئے بھی امن ہے۔ ہر کسی کو امان مل رہی ہے جو بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا، اس نے اپنے آپ کو مامون پایا۔ پھر محسن انسانیتﷺ کی بارگاہ میں بڑے بڑے دشمن اسلام اپنے کفر سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اپنے آپ کو نورِ ایمان سے منور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ کے انتقام کے خوف سے بھاگ رہے تھے وہ بھی آپ ﷺ کی شانِ رحیمی و کریمی اور معافی کے معاملے کو دیکھ اور سن کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اور آپ ﷺ کے چچا سید الشھداء سیدنا حضرت حمزہ ؓکو شہید کرنے والے وحشی بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لاتے ہوئے صحابیت کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو کر حضرت عکرمہؓ اور حضرت وحشی ؓ کہلائے۔

 پھر محسن انسانیتﷺ بیت اللہ میں داخل ہو کر 360  بتوں کو توڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ بلند کر کے حق کے آ جانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چشم فلک نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب مکہ کی گلیوں میں ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے سیدنا حضرت بلال ؓ، حضور ﷺ کے حکم سے ’’خانہ کعبہ‘‘ کی چھت پر چڑھ کے اذان دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و کبریائی اور حضور ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت و صورت اپنانے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔