غرور کا سر نیچا

تحریر : معظم علی


شام ہو چکی تھی، دھوپ درختوں کی چوٹیوں پر جا چڑھی تھی۔ جنگلی جانور جو گرمی سے بچنے کیلئے سارا دن جھاڑیوں میں پڑے رہتے تھے، اب باہر نکل کر آ رہے تھے۔ چاروں طرف بڑی چہل پہل تھی۔

تیز رفتار ہرن کوڈو بھی درختوں کے جھنڈ میں دیر سے سو رہا تھا۔ شام ہوئی تو وہ بھی جاگا اور ایک انگڑائی لے کر جھنڈ سے باہر نکل آیا۔ 

وہ بڑبڑایا’’اف! نجانے کب گرمی ختم ہوگی اور برسات کا موسم آئے گا۔ درخت اور پودے سوکھ رہے ہیں، پانی کیلئے بھی میلوں جانا پڑتا ہے‘‘۔ اسے پیاس لگی تھی۔ آس پاس کے تالاب تو سوکھ چکے تھے اس نے سوچا کہ چلو ندی پر جا کر پانی پی آئوں اور وہ ندی کی طرف دوڑ پڑا۔ 

’’راستے سے ہٹ جائو‘‘ وہ دوڑتے ہوئے چلا رہا تھا۔ ’’میں کوڈو آ رہا ہوں، جنگل کا سب سے تیز رفتار ہرن ،میرے لئے راستہ چھوڑ دو‘‘۔

کوڈو میں ایک یہی خرابی تھی کہ وہ بہت مغرور تھا۔ اپنے سامنے سب کو حقیر سمجھتا تھا۔ یہ بات ضرور تھی کہ وہ جنگل میں سب سے تیزرفتار تھا مگر اس پر غرور کرنا اچھی بات نہ تھی۔ کامبا کچھوے کو دیکھ کر بولا ’’ایسی زندگی بھی کس کام کی کہ بس گھسٹتے رہو،نہ جانے یہ کچھوے میاں کیوں بنائے گئے ہیں؟‘‘ کامبا شرمندہ ہو گیا، کہنے لگا ’’سب ہی تو تمہاری طرح تیز رفتار نہیں ہیں، آہستہ چلنے والے بھی تو جاندار ہوتے ہیں‘‘۔

کوڈو دوڑتے ہوئے چلایا ’’کوئی بھی میرے راستے میں آیا تو کچل دوں گا۔ بس پانی میں ہی رہا کر‘‘۔

 اتنے میں اسے گلہری دکھائی دی۔ گلہری درختوں پر کود کود کر تھک گئی تھی اور راستے میں بیٹھ کر سستا رہی تھی۔ کوڈو دوڑتے ہوئے رک گیا اور گلہری کو گھو رکر بولا’’میں آ رہا ہوں‘‘۔

گلہری دم ہلا کر منہ چلاتے ہوئے کہنے لگی ’’تو کیا کروں؟‘‘

کوڈو نے گردن اکڑا کر کہا: ’’جانتی نہیں، میں کوڈو ہوں۔ سب سے زیادہ تیز رفتار ہرن اور تو میرے راستے میں کھڑی ہے‘‘

گلہری نے ادھر ادھر دیکھا اور بولی ’’اتنا بہت سارا راستہ تو پڑا ہے، چلے جائو‘‘۔

کوڈو غصے سے بولا ’’میں کہتا ہوں، راستے سے ہٹ جاکیونکہ میں کوڈو ہوں، سب سے زیادہ تیز رفتار‘‘۔

گلہری بھی بگڑ گئی ’’تو اس میں اتنا غرور کرنے کی کیا بات ہے؟‘‘

’’کیوں نہ کروں غرور؟‘‘ اس نے کہا ’’کیا کوئی مجھ سے تیز دوڑ سکتا ہے؟‘‘

گلہری خاموش ہو گئی تو اتنے میں ایک آواز آئی ’’مغرور کوڈو! کیا تو مجھ سے زیادہ تیز بھاگ سکتا ہے؟‘‘ وہ کامبا کچھوے کی آواز تھی۔ 

’’کیا بکتا ہے؟‘‘

کوڈو بگڑ کر بولا ’’حقیر کچھوے! تو کہاں اور میں کہاں؟‘‘

کامبا نے للکارا ’’اگر ہمت ہے تو کل صبح گلہری کے ساتھ دوڑ لگا، بہت دور وہ درخت دیکھ رہا ہے نا؟ اگر تو اسے چھو کر گلہری سے پہلے اسی جگہ لوٹ آیا تو ہم تجھے سردار مان لیں گے۔ اگر تو بعد میں واپس آیا تو تجھے اپنا غرور ہمیشہ کیلئے چھوڑنا ہوگا‘‘

کوڈو حیران تھا وہ بولا ’’ٹھیک ہے، مگر ایک گلہری میرے ساتھ دوڑے گی۔ پاگل ہوا ہے؟‘‘

’’کل صبح اسی جگہ آ جانا‘‘ کامبا نے صرف اتنا ہی کہا۔ جب کوڈو چلا گیا تو گلہری نے کامبا سے شکایت کی ’’یہ کیا مذاق ہے! بھلا میں کوڈو کا مقابلے کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘ کامبا نے اس کے کان میں کچھ کہا اور وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ اگلی صبح کامبا اور گلہری اسی جگہ کوڈو کا انتظار کر رہے تھے۔ کوڈو کو آتا دیکھ کر گلہری زور سے بولی ’’ایسا لگتا ہے، جیسے کوڈو ڈر رہا ہو‘‘۔

’’کیا بکتی ہے؟‘‘ کوڈو نے پاس آ کر ڈانٹا ’’میں اور گلہری سے ڈروں گا۔ بے وقوف گلہری تو میرے ساتھ دو قدم بھی نہیں دوڑ سکتی‘‘۔

کامبا نے کہا ’’اچھا اب سنو! وہ سامنے والا پرانے چیڑ کا درخت دیکھ رہے ہو؟ اسے چھو کر جو بھی اس جگہ پہلے واپس آ جائے گا اسی کی جیت ہوگی۔ شرط یہ ہے کہ دوڑتے وقت کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گا۔ اب تیار ہو جائو ایک، دو، تین!‘‘ دوڑ شروع ہو گئی۔ گلہری درختوں پر چڑھ گئی تھی مگر کوڈو پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر آندھی اور طوفان کی طرح بھاگا چلا گیا۔ 

وہ سوچ رہا تھا کہ بھلا وہ احمق گلہری کہاں میرا مقابلہ کر سکتی ہے۔ وہ تو اب بہت پیچھے رہ گئی ہو گی۔ نجانے کامبا کو یہ کیا سوجھی کہ گلہری کو میرے ساتھ دوڑا دیا، خیر اب میں ان کا سردار بن جائوں گا۔ اچانک کوئی بولا’’توبہ توبہ، کیسا سست رفتار ہے یہ کوڈو، میں تو یہاں کب کی بیٹھی ہوں‘‘ کوڈو حیران رہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے گلہری ایک درخت کی جڑ میں بیٹھی کچھ کھا رہی ہے۔ کوڈو کو سخت غصہ آیا کہ کم بخت گلہری اس سے آگے نکل گئی تھی۔ وہ اور تیز دوڑنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا، سامنے درخت کی ایک شاخ پر گلہری بیٹھی ہنس رہی ہے۔ 

’’تو چل میں آتی ہوں، ذرا سستا تولوں‘‘ گلہری کہہ رہی تھی۔ 

کوڈو غصے سے پاگل ہو گیا اور اس نے پوری قوت سے دوڑنا شروع کر دیا۔ درخت کو چھو کر جب وہ ہانپتا کانپتا واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ گلہری کامبا کے پاس اطمینان سے بیٹھی باتیں کر رہی ہے۔ کوڈو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ 

گلہری بولی ’’میں تو بہت دیر سے تیری راہ دیکھ رہی ہوں، تو بڑا سست ہے، ڈوب مر‘‘۔ کوڈو شرم سے پانی پانی ہو گیا، اس کی گردن جھک گئی۔ 

اس نے کہا ’’میں خود کو سب سے زیادہ تیز رفتار سمجھتا تھا مگر آج میرا غرور ٹوٹ گیا ہے۔ میں ہار گیا‘‘۔ اور وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ گلہری وہاں سے کہیں گئی ہی نہیں تھی۔ راستے میں ملنے والی گلہری کی دو بہنیں تھیں جنہیں گلہری نے پہلے سے سب کچھ بتا دیا تھا۔ کامبا اور گلہری دیر تک ہنستے رہے۔ 

کوڈو اب بھی جنگل کا سب سے تیز رفتار ہرن ہے مگر اب وہ مغرور نہیں ہے، اسی لئے اب سب جانور اس کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔