حضورﷺ کا عفوودرگزر

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

در گزر کرنا،معاف کرنا اللہ کے ہاں انتہائی محبوب و مقبول ہے،اللہ عزوجل خود معاف کر نے کو پسند کرتا ہے،اس کا جو بندہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے،نادم ہو تا ہے،تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرماتے ہیں۔ درگزر کرنا، معاف کرنا ایک ایسا عمل ہے،جس سے انسان کا دل صاف ہو تا ہے، آپس میں پیار محبت کا اضافہ ہوتا ہے۔جو کوئی بدلہ لینے کا دل میں سوچ بھی رہا ہوتا ہے ،در گزر کر  نے سے وہ یہ عمل نہیں کرسکتا۔یہی تعلیمات نبی رحمت شافع محشر حضورﷺنے ہمیں بتلائیں۔ حضور پر نورﷺعفو و درگزر کے عظیم پیکر تھے۔ آپﷺ اعلیٰ و عمدہ اخلاق کے پیکر تھے،حتیٰ کہ مخالفین آپﷺ پر ہر قسم کے مظالم کرتے،دکھ دیتے،لیکن جناب نبی کریم ﷺنے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا،بلکہ ان کیلئے ہدایت کی دعا کی اور فرمایا کہ میں رحمت للعالمین بن کر آیا ہوں۔ 

رسول اللہ ﷺسے بڑھ کر کوئی بھی اس دنیا میں درگزر کر نے والا، معاف کر نے والا نہیں دیکھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے رب، تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے‘‘(شعب الایمان)۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺپر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپﷺ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے(جامع الترمذی)۔ایک اور روایت میں  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضورﷺ کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپﷺ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپﷺ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے‘‘۔  

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ سے ملا، میں نے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا اورمیں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺمجھے فضیلت والے اعمال بتائیے، آپ ﷺنے فرمایا: اے عقبہؓ جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم کرے، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو‘‘(مسند احمدبن حنبل)۔حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺنے ارشاد فرمایا: جب لوگ حساب کیلئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں)کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے‘‘(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد)۔

حضور نبی کریمﷺ کے اگلے چار دانت شہید ہو گئے۔ سر مبارک اور چہرہ انور بھی زخمی ہو گیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام ؓ نے رنج واضطراب کی حالت میں گزارش کی یا رسول اللہﷺ! کاش آپﷺ ان دشمنان دین پر بددعا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا:’’میں لعنت اور بددعا کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے کیلئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ حضور پاکﷺکی ہجرت کے بعد مکے میں سخت قحط پڑا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ قریش چمڑا اور مردار کھانے لگے۔ ابو سفیان کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور ﷺ کی دعا قبول ہوتی ہے، وہ مدینہ پہنچے اور آپﷺ سے ملتجی ہوئے کہ محمدﷺ! آپ ﷺ کی قوم قحط سے ہلاک ہو رہی ہے، آپﷺ ان کیلئے دعا کیجیے۔ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کے حق میں کیوں دعا کروں جنہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہمیں اپنے گھروں سے نکالا؟ بلکہ آپ ﷺ نے فی الفور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور آپ ﷺکی یہ دعا قبول ہوئی۔ آپﷺ نے فر ما یا: ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت کے انتقام کے باوجود معاف کردوں۔ جو مجھ سے قطع کرے، میں اس کو ملاؤں، جو مجھے محروم رکھے میں اس کو عطا کروں، غضب اور خوشنودی دونوں حالت میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں‘‘۔

اللہ کے نبی ﷺنے بہت ایذائیں جھیلیں، لیکن سخت ترین دن وہ تھا جب آپﷺ تبلیغ اسلام کیلئے طائف گئے۔ وہاں دعوت اسلام کے جواب میں لوگ سخت بد اخلاقی سے پیش آئے اور  آپﷺ پر بے پناہ سنگ باری شروع کر دی۔ آپﷺ جدھر کا رخ کرتے وہ آپﷺ کا پیچھا کرتے۔اتنی سنگ باری ہوئی کہ جسم مبارک لہولہان ہو گیا اور نعلین مبارک خون آلود ہو گئے۔ آخر آپ ﷺنے بڑی مشکل سے ایک باغ میں انگور کی بیلوں میں پناہ لی اور اوباشوں سے پیچھا چھڑایا۔ حضرت زیدؓ نے آپ ﷺکے جسم کا خون پونچھا۔نبی رحمتﷺ نے فرمایا: یہ میرے لیے سخت ترین دن تھا۔ میں باغ سے نکل کر غم زدہ آرہا تھا کہ اچانک بادل کے ایک ٹکڑے نے میرے اوپر سایہ کر دیا، میں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو جبرئیل علیہ السلام تھے، جبرئیلؑ نے کہا جو کچھ آپ ﷺکے ساتھ ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے دیکھا او راگر آپﷺ کی مرضی ہو تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ملا کر یہاں کی جملہ آبادی کو تہس نہس کر دیا جائے، میں نے کہا، نہیں! میں ان کی ہلاکت وبربادی نہیں چاہتا، بلکہ مجھے خدا کے فضل سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ عفو ودرگزر کا یہی نتیجہ نکلا کہ گیارہ سال بعد یہی طائف والے تھے جو آپﷺ کی عداوت سے دستبردار ہو کر آپﷺکے قدموں میں گر پڑے۔

آج بھی اگر ہم نبیﷺکے ان اصولوں کو اپنانے کی کوشش کریں تو اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی رب ذوالجلال کے ہاں سرخرو ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)