آئندہ ہفتہ حکومت اور سسٹم کیلئے اہم
بلا شبہ پاکستان کو درپیش بڑا چیلنج معاشی ہے اور معاشی بحران کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم شہبازشریف کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد بننے والی حکومت کے دوران بھی اور 8فروری کے انتخابات کے بعد بر سر اقتدار آ کر بھی معاشی مسائل کو بڑا چیلنج سمجھا اوراس پر سنجیدگی سے کام کیا۔
حکومت کی کوششوں سے پاکستان دیوالیہ پن سے بچ گیااور اب معاشی بحالی اور ترقی کا سفر شروع ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے نہ صرف پاکستان کی معاشی پیش رفت کا اعتراف کیا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ سات ارب ڈالر کامعاہدہ بھی کر لیا ہے جو موجودہ حکومت اور خصوصاً وزیراعظم کا بڑا کارنامہ ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف معاشی محاذ پر سرگرم نظر آ رہے ہیں اور دورۂ امریکہ سے واپسی پر انہوں نے مہنگائی میں کمی کے رجحان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں اور مہنگائی میں کمی براہ راست عوام کیلئے فائدہ مند ہے۔ ادارہ برائے شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح ماہ ستمبر میں 44ماہ کی کم ترین سطح کے ساتھ 6.9پر رہی ، لیکن اب بھی حکومت کو معاشی حوالے سے اصلاحات اور اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ معیشت مضبوط ہو اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ عام آدمی آج بھی مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ ہے اور عام آدمی کو ریلیف اسی صورت ممکن ہے جب حکومت صنعتی عمل پر توجہ دے اور برآمدات بڑھائے۔بلاشبہ معیشت ٹیک آف کی پوزیشن میں ہے لیکن اس کیلئے ساز گار سیاسی حالات کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت معاشی حوالے سے سنجیدہ ہے مگر سیاسی مخالفین کو یہ پیش رفت ہضم نہیں ہو رہی اور وہ ملک میں ایسی صورتحال برپا کرنے پر بضد ہے کہ ملک آگے نہ بڑھ سکے اور معاشی ترقی کا خواب حقیقت نہ بن سکے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ احتجاج پر مُصر ہے اور بانی پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی نئی لہر برپا کرنے کیلئے اپنی جماعت کے ذمہ داران کو ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اس حوالے سے آنے والی خبروں میں خصوصاً بیرسٹر گوہر اُن کا ٹارگٹ بنے اور ایسی خبریں بھی ہیں کہ انہیں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک تو بڑی وجہ آئی ایم ایف سے حکومت کو ملنے والا بڑا پیکیج اور دوسرا مجوزہ آئینی ترامیم ہے جسے ناکام بنانے کیلئے پی ٹی آئی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کروانے میں کامیاب ہو گئی تو اس کیلئے ریلیف کے دروازے بند ہوجائیں گے اور اس کیلئے بڑا سیاسی کردار ممکن نہیں ہو پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ذمہ داران جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ کیا مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کی امیدوں پر پورا اتریں گے؟ اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں تینوں بڑی پارٹیوں کو بھگا بھگا کر تھکا رہے ہیں۔ جہاں تک آئینی ترامیم کی منظوری کی بات ہے تو یہ مشن اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سپرد ہے اور وہ مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر جماعتوں سے رابطے میں ہیں اور خبریں یہ ہیں کہ مذکورہ ترامیم کے حوالے سے 10 اکتوبر کی تاریخ اہم ہے۔ ترامیم کی منظوری کے حوالے سے (ن) لیگ کی حکومت کو خاطر خواہ نتائج نہ ملے اوراجلاس مؤخر کرنا پڑا ۔ پھر یہ ذمہ داری بلاول بھٹو زرداری کو سونپ دی گئی، لہٰذا د یکھنا یہ ہے کہ بلاول اس محاذ پر کامیاب ہوں گے اور کیا مسلم لیگ (ن) ان کی کامیابی کیلئے کوشاں ہو گی ،کیونکہ اس محاذ پر بلاول بھٹو زرداری کی کامیابی موجودہ حالات میں ایک بڑی کامیابی قرار پائے گی اور پیپلزپارٹی کو آنے والے وقت میں بڑا کردار بھی مل سکتا ہے۔اس کامیابی کیلئے انہیں ہر صورت مولانا فضل الرحمن کو ساتھ ملانا ہو گا جو فی الحال اپنا سیاسی وزن کسی کے پلڑے میں ڈالتے نظر نہیں آ رہے۔
ایک طرف مولانا فضل الرحمن آئینی عدالت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وہ حکومتی مسودے کو ٹارگٹ بھی کرتے ہیں اور اپنا مسودہ سامنے لانے کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پی ٹی آئی سے بھی روابط ہیں اور ان سے مل کر آئینی مسودے کی تیاری کا عمل جاری ہے۔ دوسری جانب وہ مجوزہ مسودے کیلئے پیپلزپارٹی سے بھی رابطے میں ہیں اور واقفانِ حال کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں حکومت کا آئینی ترمیمی بل رکوانے کا کریڈٹ انہی کا ہے اور اس نے ان کو معمولی پارلیمانی قوت کے ساتھ بڑے سیاسی کردار کا حامل بنا دیا۔ اب بھی وہ ایسا ہی چاہتے ہیں۔ وہ کبھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آئینی ترامیم کیلئے قبل از وقت انتخابات ناگزیر ہیں اور کبھی آئینی اصلاحات پر مبنی بل کیلئے اتفاق رائے کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا آئینی ترمیمی بل پر اتفاق رائے ہوگا ؟یہ تو پی ٹی آئی کی وجہ سے خارج از امکان نظر آتا ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن مجوزہ ترامیم میں کھل کر ساتھ نہیں دیتے تو پھر حکومت کیلئے مذکورہ ترامیم منظور کروانا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ فی الحال تو حکومت کے پاس نمبرز پورے نہیں اور اب حکومتی سطح پر یہ طے ہو چکا ہے کہ نمبرز پورے کئے بغیر اجلاس نہیں بلایا جائے گا، لہٰذا اب جہاں حکومت کیلئے مذکورہ آئینی ترمیمی بل ٹیسٹ کیس ہے تو تحریک انصاف بھی اس پر اثر انداز ہونے کیلئے اپنے اپنے ٹیسٹ کیس بنا چکی ہے اور اس مقصد کیلئے ان کے پارٹی ذمہ داران مولانا فضل الرحمن کے ’’گوڈوں‘‘ کو ہاتھ لگاتے نظر آ رہے ہیں، لیکن مولانا فضل کا ترامیم کی حمایت اور مخالفت کی ایک سیاسی قیمت ہو گی دیکھنا ہوگا کہ کون یہ سیاسی قیمت چکانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے، البتہ یہ طے ہے کہ مذکورہ ترامیم کے حوالے سے آنے والا ہفتہ اہم ہے۔ اس حوالے سے فریقین کے پاس کوئی بی پلان بھی ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں بھی قربتوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اور 9اکتوبر جماعت اسلامی کی جانب سے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کیلئے مشترکہ احتجاج پر پی ٹی آئی نے آمادگی ظاہر کی ہے۔یہ فیصلہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے ذمہ داران کے درمیان ملاقات میں ہوا ہے۔ فلسطین کاز پاکستانیوں کیلئے حساس معاملہ ہے۔ کوئی اس کی مخالفت کی جرأت نہیں کر سکتا ،لیکن بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کیا پی ٹی آئی کے سیاسی ایجنڈا پر اس کے ساتھ ہوگی؟ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اس کی بڑی وجہ بڑی جماعتوں کا مذہبی سیاسی جماعتوں سے طرز عمل ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ بڑی جماعتیں انہیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں اور اقتدار آتا دیکھ کر ان سے نظریں پھر لیتی ہیں۔ فلسطین کاز پر احتجاج وقت کی ضرورت مگر سیاسی محاذ پرجماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں مل کر کوئی کردار فی الحال خارج از امکان ہے۔