علاقائی نہیں قومی سیاست کی ضرورت

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں و کشمیر کے مختلف حلقوں میں ایک نئی علاقائی سیاسی جماعت کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ڈیڑھ سال قبل جب سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کے کیس میں نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا یا گیا تھا اور پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بناکر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا تو اس وقت بھی چوہدری انوار الحق کی قیادت میں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی مداخلت پر آخری لمحات میں روک دیا گیا تھا۔

لیکن گزشتہ ماہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی کے انتخابات میں وہاں کی ریاستی جماعت نیشنل کانفرنس کی کامیابی کو جواز بناکر ایک مرتبہ پھر علاقائی یا ریاستی جماعت کے قیام پر زور دیا جا رہا ہے۔آزاد جموں و کشمیر میں بعض حلقے مقامی جماعت کے قیام کو اس لئے ناگزیرقرار دے رہے ہیں کہ اس سے عوامی ایکشن کمیٹی کا راستہ روکا جائے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹی تاجروں کی مختلف تنظیموں اور سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی ہے جس کی کوششوں سے آزاد جموں و کشمیر میں سستی بجلی اور آٹے کے بعد پراپرٹی ٹیکس کو 14 فیصد پر لایا گیا ہے۔ یہ تینوں مطالبات عام آدمی سے متعلقہ تھے اور سستے آٹے اور بجلی کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے 70 سال سے آزاد جموں و کشمیر کی سیاست اور وسائل پر قابض تین قبائل اور چند سو سیاستدانوں اور مقامی افسران کی اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدیداروں کا سب سے اہم مطالبہ اشرافیہ کی مراعات میں کمی کا ہے۔ حکومتی اشرافیہ سے مراد آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعظم اور صدور ہیں۔یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں 20 لاکھ آبادی کے علاقے میں 30 وزرا کی جگہ 10 وزیر رکھے جائیں اور سرکاری ملازمین کی گاڑیوں کی مرمت کے اخراجات کو بھی کم کیا جائے۔ یہ مطالبات عام آدمی کے دل کے قریب ہیں اور حکومت پر ہر گزرتے دن کے ساتھ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ وزرا اور اشرافیہ کی مراعات کم کرے۔ادھر عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ سرکاری افسران اور اشرافیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ سرکاری گاڑیوں کو دفتری اوقات میں استعمال کر کے شام کو چھٹی کے بعد مرکزی ٹرانسپورٹ پول یا سرکاری دفاتر میں کھڑاکریں۔لیکن حکومت اگر عوامی ایکشن کمیٹی کا کوئی مطالبہ پورا کرتی ہے تو دوسرے دن وہ ایک نیا مطالبہ لیکر سامنے آجاتی ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی مقبولیت سے آزاد جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتوں سے زیادہ علاقائی لیڈرشپ ایکسپوز ہو ئی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ بیانیہ بھی مقبول ہو رہا ہے کہ گزشتہ ستر سال سے حکومت پاکستان آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ مالی وسائل دے رہی ہے لیکن ان وسائل پر مقامی سیاستدان اور افسر شاہی عیاشی کرتی رہی جبکہ سرکاری نوکریاں اپنے قبائل اور رشتہ داروں میں تقسیم کر کے عام آدمی کو نظر انداز کیا جا تارہا۔ ماضی میں علاقائی یا ریاستی سیاسی جماعتوں نے اگر میرٹ اور عام آدمی کی ضرورت کے مطابق حکومت کی ہوتی تو آج عوامی ایکشن کمیٹی کا وجود نہ ہوتا۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی مقبولیت کو دیکھ کر جس سیاسی اشرافیہ کی دکان بند ہو ئی ہے وہ اب اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نام نہاد اسمبلی انتخابات میں وہاں کی ریاستی جماعت نیشنل کانفرنس کی کامیابی کو جواز بناکر آزاد جموں و کشمیر میں ایک مرتبہ پھر عوام کی خدمت کے نام پر ایک نئی علاقائی یا ریاستی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنا چاہتی ہے۔اول تو مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی جماعت نیشنل کانفرنس کے بیانیہ کے ساتھ لائن آف کنڑول کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیری اس کے قیام سے لیکر آج تک اختلاف کر رہے ہیں۔دوم آزاد جموں و کشمیر کے لوگ پاکستان کے شہریوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ اس رشتے کو مضبوط کرنے کیلئے ایسے سیاسی فیصلے کرنے چاہئیں کہ اسلام آباد اور مظفر آباد مزید قریب آئیں۔ اس وقت آزاد جموں و کشمیر کے عوام اور یہ علاقہ دستور پاکستان میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے۔ 1947ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان میں آباد ہوئے ان کی پاکستان کے آئین میں شناخت موجود ہے جبکہ آزاد کشمیر کے علاقے اور یہاں کے لوگوں کا دستور پاکستان میں ذکر نہیں۔ کیا اس وقت آزاد جموں و کشمیر کے علاقے اور یہاں کے لوگوں کی مقامی شناخت کو آئین پاکستان میں شامل کرنے کی ضرورت ہے یا اسلام آباد اور مظفرآباد میں دوریاں بڑھانے کیلئے نئی علاقائی سیاسی جماعت کا قیام ضروری ہے؟

 آزاد جموں و کشمیر میں علاقائی سیاسی جماعتیں چند حلقوں کو جوابدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے علیحدگی کا تاثر بھی دے رہی ہیں۔ جو ایک طرف اپنے آپ کو پاکستان کے وفادار کہتے نہیں تھکتے دوسری جانب یہاں کے لوگوں کو پاکستان سے دور کر رہے ہیں۔مگر آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو وفاق گریز اقدامات کرنے کے بجائے پاکستان کے آئین میں اپنی جگہ بنانی چاہے تاکہ مستقبل میں خدا نہ کرے دشمن کی کسی جارحیت کو حکومت پاکستان اپنے دستور اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر مؤثر انداز سے اجاگر کر سکے۔ اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں علاقائی سیاسی جماعت سے زیادہ قومی سیاسی جماعتوں کی موجودگی اور وسعت کی ضرورت ہے، جسے آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان کے سیاسی اثر و رسوخ کو فروغ مل سکے اور اس علاقے کی سالمیت کو عالمی سطح پر یقینی بنایا جا سکے۔ آزاد جموں وکشمیر کے حوالے سے قومی سطح کے سیاسی اقدامات کے ساتھ یہاں کی حسین وادیوں میں نظریہ پاکستان پھلے اور پھولے گا اور یہاں قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ستائیسویں ترمیم کیوں ضروری ہے؟

ملک میں اب ستائیسویں آئینی ترمیم کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی اس پر مشاورت بھی ہوئی ہے مگر ستائیسویں ترمیم کرنے سے متعلق ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب و قطر اہم کیوں؟

وزیراعظم شہبازشریف معاشی چیلنجز کو ہدف سمجھتے ہوئے اس حوالے سے کوشش کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔بے شک معاشی مضبوطی ہی ملک کی بقا و سلامتی کی ضامن ہے۔

کراچی، احوال اور مسائل

کیسی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ مفروضوں، فرضی کہانیوں، سنی سنائی باتوں اور جھوٹ پر یقین میں زندگی گزاردیتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی بات ہو یا کورونا وائرس کا معاملہ ہو، ہر چیز میں اپنے خلاف سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کا پلڑا بھاری

پشاورایک بارپھر پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ اس بار بانی پی ٹی آئی خود تو یہاں نہیں لیکن اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی وزیراعلیٰ ہاؤس کی مہمان ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بانی پی ٹی آئی نے پشاور کو سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنایاتھا۔

ترقی امن کی ضامن

بلوچستان میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ احساسِ محرومی کو تیز رفتار ترقی کے ذریعے ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔صوبے کے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں،عوام کو ترقی کے عمل میں شراکت دار بناکر صوبے کے وسائل کو ان کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔

بدلتے موسم میں پہناوئوں کے انداز!

بدلتے موسم کے ساتھ ہی لباس کے رنگ اور انداز بھی بدل جاتے ہیں،گرمیوں کے رنگ اور ہوتے ہیں تو سردیوں میں مختلف اور شوخ رنگوں کو پسند کیا جاتا ہے۔