وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب و قطر اہم کیوں؟
وزیراعظم شہبازشریف معاشی چیلنجز کو ہدف سمجھتے ہوئے اس حوالے سے کوشش کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔بے شک معاشی مضبوطی ہی ملک کی بقا و سلامتی کی ضامن ہے۔
ان دنوں وزیراعظم شہبازشریف اپنے سینئر رفقائے کار کے ساتھ سعودی عرب کے دورہ پر تھے جہاں انہیں ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو(FII) کانفرنس میں شرکت کرنا تھی اوران کی ولی عہد شاہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی ہوئی۔ مذکورہ کانفرنس کا مقصد رکن ممالک کے درمیان معاشی تعلقات اور سرمایہ کاری کے عمل کے ساتھ ساتھ آئی ٹی، تعلیم اور صحت سمیت مختلف شعبہ جات میں امکانات اور اقدامات بڑھانا تھا، لیکن وزیراعظم نے مذکورہ کانفرنس میں اپنے خطاب کے ذریعہ پاکستان کا معاشی کیس سامنے رکھا اور بتایا کہ یہاں سرمایہ کاری کے امکانات کیا ہیں اور یہ کہ پاکستان مستحکم معیشت اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور حکومت نے کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے جامع اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف بیرونی محاذ پر پاکستان کا معاشی کیس مؤثر انداز میں پیش کر کے یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری یقینی بنانے کیلئے سرگرم عمل ہیں اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔تاہم معاشی ترقی کے عمل اور پاکستان کو آگے لے جانے کیلئے جس سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اس کیلئے بھی خاطر خواہ اقداما ت درکار ہیں۔ جب تک پاکستان میں معاشی اور کاروباری حوالے سے ساز گار ماحول نہیں بنتا سرمایہ کاری نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔ وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی عرب میں FII کے موقع پر ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملاقات بھی اہمیت کی حامل ہے۔ مذکورہ کانفرنس پر وزیراعظم شہبازشریف نے سعودی ولی عہد کو مبارکباددی اور اسے سعودی عرب کا ایک شاندار اقدام قرار دیا۔ ملاقات میں پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا ذکر بھی ہوا اور وزیراعظم شہباز شریف نے ولی عہد محمد بن سلمان کو پاکستان میں معاشی اصلاحات اور سرمایہ کاری کے امکانات پر اعتماد میں لیا اور بتایا کہ ہم ترقی و استحکام کی جانب گامزن ہیں جس میں سعودی عرب کا تعاون اور اعتماد اہم ہے۔ مذکورہ ملاقات کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس سے مزید سرمایہ کاری بھی ممکن ہوگی۔ وزیراعظم شہبازشریف کا سعودی عرب کے بعد قطر کا دو روزہ دورہ ہے جس کا بڑا مقصد بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہے۔
سیاسی محاذ پر 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت کو عدلیہ کے محاذ پرکوئی فوائد مل سکیں گے، اس حوالے سے دو آراء ہیں لیکن مذکورہ ترمیم کے دوران تحریک انصاف کی حکمت عملی نے اسے پریشان کن صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے اور جماعت کے اندر اس حوالے سے اختلافی بیانات کا رجحان ہے جس سے ایک نفسیاتی کیفیت نظر آ رہی ہے۔ تحریک انصاف26ویں آئینی ترمیم کا راستہ تو روک نہ سکی البتہ اس سے اس کی احتجاجی صلاحیت برُی طرح متاثر ہوئی اور اس کا بڑا نقصان اسے جماعت کے اندر اختلافی بیانات سے ہوا۔اب تحریک انصاف خود کو اس کیفیت سے نکالنے کیلئے سرگرم ہے اور دوبارہ احتجاجی جلسوں کا اعلان کر دیا گیا ہے، لیکن اس میں پنجاب شامل نہیں۔ ویسے بھی عام تاثر ہے کہ اس وقت تحریک انصاف پر پختونخوا کے رہنمائوں کا قبضہ ہے۔ وہ پارٹی پر اپنے فیصلے مسلط کر رہے ہیں اور اس حوالے سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کردار نمایاں ہے۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے اس کردار کو نمایاں بھی خود بانی پی ٹی آئی نے کیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ احتجاجی سیاست میں اپنے حکومتی کردار کو نمایاں کرتے ہوئے ملک میں احتجاجی کیفیت طاری کر پائیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ البتہ ایسی اطلاعات ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی کے حوالے سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کردار اہم ہے اور یہ امر بھی پارٹی میں اختلافات کے باعث بنا ہے۔
تحریک انصاف کیلئے بڑا سیاسی نقصان خود پنجاب جیسے بڑے صوبے میں اس کے سیاسی و احتجاجی کردار کا فقدان ہے۔ اگر یہ کہا جائے توبے جا نہ ہو گا کہ تحریک انصاف میں پنجاب کی سطح پر لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ پنجاب کے قائدین میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چودھری، ڈاکٹر یاسمین راشد جیل میں ہیں، حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال سیاسی منظر سے غائب ہیں۔ لیڈر شپ کا فقدان پارٹی کی تنظیمی اور سیاسی کمزوری کا باعث بنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی نئی احتجاجی حکمت عملی میں پشاور، کراچی اور کوئٹہ کیلئے تو جلسوں کا اعلان کیا ہے لیکن پنجاب میں کسی احتجاجی جلسہ کا اعلان نہ ہونا پی ٹی آئی کی کمزوری کی علامت ہے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے ورکرز اپنی لیڈر شپ کے کردار سے نالاں نظر آتے ہیں۔ پارٹی کے اندربیرسٹر گوہرعلی، علی ظفر، شعیب شاہین، لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ کے بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب اپنی اپنی اُڑان پر ہیں اور اپنی پارٹی کے مفادات کو ترجیح دینے کی بجائے اپنے سیاسی کردار کے تحفظ کیلئے سرگرم ہیں۔ حال ہی میں سلمان اکرم راجہ اور فیصل چوہدری کے درمیان پیدا شدہ صورتحال، پھر شیر افضل مروت اور فواد چوہدری اور فیصل چوہدری کے درمیان تنازع، پھر شعیب شاہین کے تحفظات بہت سے اختلافات کی نشاندہی کر رہے ہیں، جس سے عملاً پارٹی میں لیڈر شپ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ خصوصاً پنجاب کے سیاسی محاذ کا عملاً لاوارث ہونا پارٹی کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ اس سے کون نمٹ پائے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مشکل کیفیت میں پارٹی میں یکسوئی اور سنجیدگی سیاسی جماعت کی طاقت ہوتی ہے لیکن یہاں جماعت ہنگامی صورتحال سے دوچار نظر آ تی ہے۔ اس کیفیت میں احتجاجی تحریک تو کجا کوئی احتجاجی جلسہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتا نظر نہیں آ تا۔ جہاں تک جماعت کے بعض ذمہ داران خصوصاً لطیف کھوسہ کی جانب سے نومبر میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے امکانات کی بات ہے تو یہ جماعت کو نفسیاتی کیفیت سے نکالنے اور اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ اگر اس رہائی کا تعلق امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی جیت کے ساتھ ہے تو پھر یہ صورتحال بھی ’’فریبِ زندگی ہے سہاروں کی زندگی‘‘ والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے آج تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ اس نے سیاسی قوتوں کے ساتھ بھی ڈیڈ لاک کی کیفیت طاری رکھی اوراسٹیبلشمنٹ سے بھی اپنے روابط بحال کرنے کی بجائے بند کر لئے۔ آج عملاً پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت بندگلی میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ یہی اس حکومت کی اصل طاقت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مشکل حالات میں 26ویں آئینی ترمیم پاس کروانے کے بعد اب 27 ویں آئینی ترمیم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا پی ٹی آئی اس کا راستہ روک پائے گی؟ فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آ تا۔