کراچی، احوال اور مسائل
کیسی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ مفروضوں، فرضی کہانیوں، سنی سنائی باتوں اور جھوٹ پر یقین میں زندگی گزاردیتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی بات ہو یا کورونا وائرس کا معاملہ ہو، ہر چیز میں اپنے خلاف سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔
اسی کا شاخسانہ ہے کہ پولیو جو پاکستان سے معدوم ہوچکاتھا ایک بار پھر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ رواں برس اب تک پولیو کے 42کیسز سامنے آچکے ہیں ، ان میں 12 کا تعلق سندھ سے ہے۔ کراچی میں ہر ضلع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے مطابق افسوسناک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ کراچی جسے تعلیم یافتہ شہر گردانا جاتا ہے، پولیو ویکسین پلانے سے مجموعی انکار کا 85فیصد اسی شہر سے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ایسے والدین کو قائل کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے لیے ٹیمیں بھی بنا ئی گئی ہیں۔ پولیو ویکسین کے بارے میں بے بنیاد وہم کے باعث خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں پولیو کا خاتمہ اب چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں انسداد پولیو مہم جاری ہے، والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں اور اس سے بڑھ کر اپنے بچے کی زندگی کا تحفظ کریں۔
سندھ میں ایک مسئلہ ان بچے بچیوں کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے جنہوں نے بے انتہا محنت اور ایمانداری سے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ دیا، نتائج آنے پر رب کا شکر ادا کیا اور میڈیکل کالجوں میں داخلے کی تیاری شروع کردی، لیکن عدالتی حکم پر اب یہ ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کچھ جعل سازوں نے ایم ڈی کیٹ کا پرچہ آؤٹ کیا، کچھ مال بنالیا لیکن ہزاروں بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے انہیں ذرا شرم نہ آئی۔ ایف آئی اے نے انکوائری بھی شروع کردی ہے، غیر معمولی نمبرز حاصل کرنے والوں کو بھی طلب کیا جارہا ہے۔ نواب شاہ بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے والی ایک امیدوار نے تو 200میں سے 194نمبر حاصل کرلیے۔ ایسے تمام افراد کو نوٹس دیا گیا ہے ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ان کا فرضی امتحان بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس دھندے میں ملوث وہ سارے لوگ جو کسی نہ کسی طرح شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں انہوں نے تو شاید یہ طے کر رکھا ہے کہ اس ملک سے تعلیم کو ختم کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔ ان افراد کو پکڑنے اور قرار واقعی سزا دینے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ سیاست اپنی جگہ لیکن جو لوگ کسی ملک، صوبے یا شہر کے حکمران ہیں ان کی ذمہ داری صرف بیان بازی تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ بے ایمانوں اور چوروں کے خلاف ایکشن ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس بھی آج کل جاری ہے جہاں بڑے جہاں دیدہ سیاسی نمائندے موجود ہیں۔ اگلے روز اجلاس نے اتفاق رائے سے کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کی قرارداد منظور کرلی، چلئے کسی بات پر تو سب متفق ہیں، ورنہ کھینچا تانی اور جملے بازی ہی نظر آتی ہے۔ ویسے قراردادیں پاس کرنے یا قانون پاس کرنے سے عوام کا نہ تو تحفظ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ان کا پیٹ بھرتا ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں ملیریا، چکن گونیا اور ڈینگی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ صوبے میں رواں سال ملیریا کے ڈھائی لاکھ کیس سامنے آئے ہیں۔یہ تو سرکاری اعداد و شمار ہیں، بے شمار کیسز ایسے بھی ہیں جو نیم حکیموں سے دوائیں لیتے ہیں یا پھر ٹوٹکوں سے علاج کرتے ہیں، ان کا کوئی ریکارڈ نہیں بنتا۔ ایسے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوگی۔ ڈینگی اور چکن گونیا کے مریض الگ ہیں۔ ترجمان محکمہ سندھ کا کہنا ہے کہ رواں سال ڈینگی سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔ عوام کی جانب سے بار بار مچھر مار مہم کا مطالبہ کیا جارہا ہے، عملی طور پر تو کوئی مہم نظر نہیں آرہی، اگر کاغذ میں کہیں ہے تو اس کا نہیں معلوم۔
سیاست کی بات کرنے بیٹھیں تو کہیں نہ کہیں سے عوام اندر جھانکنے لگتے ہیں۔ کراچی ہی کی صورتحال دیکھیں، شہر میں ڈمپروں اور ٹریلروں یا ہیوی گاڑیوں سے حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ جنوری سے اب تک 600کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز کہتے ہیں کہ شہر میں جگہ جگہ ترقیاتی کام ہورہا ہے، پانی بھی فراہم کیا جاتا ہے، اس لیے ڈمپروں اور واٹر ٹینکروں کو نہیں روکا جاسکتا۔اگر ان کی بات درست مان بھی لیں تو 20، 22 ٹائر والے ڈمپر شہر میں کیا کر رہے ہیں؟ یہ ڈمپر اور واٹر ٹینکر تعمیرات میں حصہ لے رہے ہیں یا شہر کی سڑکوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں؟ ان گاڑیوں کے چلنے کا کوئی وقت نہیں ہے ، کم از کم ان گاڑیوں کے سائز اور وزن کی تو کوئی حد ہوگی، یا وہ بھی نہیں ہے؟ شہر کی کسی بھی سڑک پر کھڑے ہوجائیں اور بجری سے بھرے ٹرک پر نظر ڈالیں، ان ڈمپروں سے مسلسل بجری گرتی اور اڑتی رہتی ہے۔واٹر ٹینکروں سے پانی گرتا رہتا ہے جو مسلسل حادثات کا سبب بنتا ہے۔ کیا یہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا؟ڈی آئی جی ٹریفک اگر قانون بتا رہے ہیں تو انہیں کیا ہر سڑک کے موڑ پر، جہاں گاڑی کی رفتار کم کرنا پڑتی ہو ٹریفک اہلکار کھڑے نظر نہیں آتے جو وصولیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی گاڑی ان کی پہنچ سے نکل کر تو دکھائے۔ ڈی آئی جی صاحب کہتے ہیں گڈز ٹریفک پر پابندی ہے، ویسے ایسی بھی کوئی پابندی نظر نہیں آتی۔ یقین نہ آئے تو کسی روز شہر کا سفر کریں تب شاید اس شہر کے لوگوں کی پریشانی اور دکھ کا کوئی اندازہ ہوجائے۔ 600 افراد حادثات میں مارے گئے تو کیا ان کی زندگی بچانے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا اور اگر ایسا کوئی قانون ہے تو اس پر عمل کون کرائے گا؟اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو شاید بات بہت لمبی ہوجائے گی۔ صرف اتنا عرض ہے کہ عوام کا بھی کچھ خیال کریں، ایک آدمی نہیں مرتا اس کے ساتھ پورا خاندان مرجاتا ہے۔