ترقی امن کی ضامن
بلوچستان میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ احساسِ محرومی کو تیز رفتار ترقی کے ذریعے ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔صوبے کے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں،عوام کو ترقی کے عمل میں شراکت دار بناکر صوبے کے وسائل کو ان کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبے بلوچستان کے عوام کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔حالیہ دنوں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت تین اہم منصوبوں کا افتتاح صوبے کی ترقی کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ ان منصوبوں میں: ماؤنٹین ویو ٹیک پارک، سرکلر روڈ انٹیگریٹڈ پارکنگ پلازہ اور ایل پی جی ٹیکنیکل لیبارٹری شامل ہیں۔ ماونٹین ویو ٹیک پارک بلوچستان کا پہلا آئی ٹی پارک ہے جو مری آباد میں قائم کیا گیا ہے۔ اس سے بلوچستان کی آئی ٹی انڈسٹری میں انقلاب آئے گا اور نوجوان نسل کو دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقع ملے گا۔سرکلر روڈ انٹیگریٹڈ پارکنگ پلازہ کا قیام کوئٹہ کے ٹریفک مسائل کے حل کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ یہ منصوبہ جدید سہولیات سے آراستہ ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرز پر بنایا گیا ہے جس میں 600گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ایل پی جی ٹیکنیکل لیبارٹری کا قیام توانائی کے میدان میں بلوچستان کیلئے ایک سنگ میل ہے۔ یہ منصوبہ بلوچستان کو توانائی کے شعبے میں خود انحصاری کی طرف لے جائے گا اور مقامی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی حکمت عملی نے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار کو تیز کیا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے حکومتی وسائل کا بہترین استعمال ممکن ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ضلع پشین میں زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے منصوبے کا افتتاح بھی کیا۔زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کا منصوبہ زمینداروں کے دیرینہ مسائل کا حل فراہم کرے گا اور بلوچستان کی زرعی معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ بلوچستان جہاں پانی کی کمی اور بجلی کی فراہمی میں مشکلات جیسے مسائل عرصہ دراز سے درپیش ہیں اس منصوبے سے زراعت کو فروغ حاصل ہوگا اور زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔ اس منصوبے کو شفاف طریقے سے عملی جامہ پہنانے کیلئے زمینداروں کو براہِ راست مالی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے افتتاحی تقریب میں کہا کہ کچھ تاخیر نیک نیتی کی بنیاد پر ہوئی تاکہ تمام مالی لین دین شفاف طریقے سے ہو سکے۔ اس تاخیر کے باوجود حکومت نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج زمینداروں کو اس منصوبے سے استفادہ حاصل ہونے جا رہا ہے۔وزیراعلیٰ بگٹی کا یہ اقدام نہ صرف زراعت کے شعبے کو مستحکم کرے گا بلکہ بلوچستان کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت ہر نوجوان کو سرکاری ملازمت دینے کی پوزیشن میں نہیں لیکن باعزت روزگار فراہم کرنے کیلئے دیگر متبادل ذرائع مہیا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعت بی این پی کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت نے پارٹی کے دو سینیٹروں قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان کوپارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی اور 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر حکومتی اتحاد کے حق میں ووٹ دینے کی بنا پر پارٹی سے نکال دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر نائب صدر ساجد ترین نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے مذکورہ سینیٹرز کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ مذکورہ دونوں سینیٹروں نے بلوچستان کے عوام اور پارٹی کو دھوکہ دیا۔ دونوں سینیٹروں کو نااہل قرار دینے کیلئے قانونی چارہ جوئی کا بھی کہا گیا ہے۔رواں ہفتے بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کا تین روزہ ساتواں مرکزی قومی کنونشن کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں پارٹی کارکنوں اور پارٹی کونسلروں نے بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر انٹرا پارٹی انتخابات بھی کروائے گئے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک بار پھر پارٹی کے مرکزی صدر جبکہ جان محمد بلیدی سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ مرکزی قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبے کے سیاسی حالات پر پارٹی کی پوزیشن اور لائحہ عمل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ترین ہے جس کو حل کئے بغیر ترقی نا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب بلوچستان حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کی بات کی جائے تو وہ اس وقت اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور یہ اختلافات نہ صرف پارٹی کی صوبائی قیادت اور کارکنوں کے درمیان بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ صوبے میں اس کی سیاسی حیثیت کو بھی کمزور کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے مستقبل کے حوالے سے سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ان اختلافات کی بنیادی وجوہات نظریاتی کارکنوں کی عدم تسلی، پارٹی قیادت کی عدم توجہ اور مراعات کیلئے جاری بلیک میلنگ کے الزامات ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر کارکنان کی جانب سے لگائے جا نے والے الزامات پارٹی کی اندرونی کمزوریوں کو منظر عام پرلے آ ئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی میں نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جنہوں نے پارٹی کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی کے اندر کچھ ’پیراشوٹر‘ داخل ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو ان کی محنت کا صلہ نہیں مل رہا۔ گورنر شیخ جعفر مندوخیل اور جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ نے کافی وقت گزرنے کے باوجود پارٹی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا جس سے کارکنوں میں مزید مایوسی پھیل رہی ہے اور پارٹی کے اندر اختلافات مزید بڑھتے جارہے ہیں۔پارٹی کے کارکنان کے مطابق قیادت کی غفلت اور عدم توجہ بھی ان اختلافات کی ایک اہم وجہ ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے اندرونی اختلافات کی موجودہ صورتحال ایک خطرناک موڑ پر ہے جہاں پارٹی کارکنان اور قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی بے یقینی صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی ساکھ اور سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مسلم لیگ ( ن) کو ان مسائل کی جانب توجہ دینا ہو گی تاکہ کارکنوں کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے اور قیادت اور کارکنوں کے درمیان اعتماد کی بحالی ممکن ہو سکے۔ مسلم لیگ ( ن) کی قیادت کو اس موقع پر واضح اور شفاف حکمت عملی اپنانی ہوگی جس میں نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دی جائے اور بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔ صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی ساکھ بچانے اور سیاسی قوت کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کارکنوں کی شکایات کا جلد از جلد ازالہ کیا جائے۔