وزیر اعلیٰ کا پلڑا بھاری
پشاورایک بارپھر پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ اس بار بانی پی ٹی آئی خود تو یہاں نہیں لیکن اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی وزیراعلیٰ ہاؤس کی مہمان ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بانی پی ٹی آئی نے پشاور کو سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنایاتھا۔
پی ٹی آئی کی اس صوبے میں حکومت تھی تو جماعت کی سیاسی سرگرمیاں یہیں سے ہوتی تھیں اور یہیں سے مانیٹر کی جاتیں۔ پھر پی ٹی آئی کو نجانے کیا سوجھی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یکے بعد دیگرے اپنی حکومتیں ختم کردیں تو یہاں سے پی ٹی آئی کو سیاسی مہم چلانے کی جو سہولت حاصل تھی وہ ختم ہو گئی۔ اب ایک بارپھر تمام نظریں پشاور کی جانب ہیں۔ بشریٰ بی بی جیل سے رہائی کے بعدپشاور پہنچی ہیں۔ اگرچہ پارٹی کی جانب سے کہاگیا ہے کہ وہ شوکت خانم ہسپتال سے اپنا علاج کروائیں گی ،تاہم ان کے پشاور پہنچتے ہی وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس بلایاگیا جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ بشریٰ بی بی پارٹی معاملات کو بھی دیکھیں گی۔اگرچہ پارٹی کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بانی پی ٹی آئی کی ہدایات سے آگاہ کیا جس کے بعد یہ ہدایات وقتاًفوقتاً پارٹی رہنماؤں تک پہنچ رہی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے پشاور آنے اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں قیام کرنے سے سب سے زیادہ فائدہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہے۔ پہلے بھی پارٹی کے بیشتر فیصلے وہی کررہے تھے لیکن بشریٰ بی بی کے یہاں ہونے سے ان کے فیصلوں کو تقویت ملے گی اور ان پر بانی پی ٹی آئی کی مہر ثبت ہوگی۔ پارٹی کے اندر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے حوالے سے جو شکوک تھے اب ان میں بھی کمی آئے گی۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اور پنجاب کی قیادت کے مابین رسہ کشی جاری تھی جس میں اب پلڑا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا بھاری ہوگیا ہے۔ اگرانہیں اپنے فیصلوں میں بشریٰ بی بی کی تائید حاصل ہوئی توان کے مخالفین کے منہ بند ہوجائیں گے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ بیرسٹر گوہر بطور چیئرمین پارٹی میں دھڑے بندیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندیاں کوئی نئی بات نہیں، مختلف دھڑے اس جماعت میں بھی موجود ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں بھی مختلف دھڑے تھے جن کے مابین طاقت کے حصول کیلئے کھینچا تانی جاری رہتی تھی۔ اگرچہ ان میں سے کچھ طاقتور کھلاڑی جن میں پرویز خٹک اور محمود خان شامل ہیں، اب پارٹی میں نہیں لیکن یہ دھڑے بندیاں اب بھی موجود ہیں۔ ایک مضبوط گروپ عاطف خان کا ہے جس نے ہر دور حکومت میں اپنی جماعت کے وزیراعلیٰ کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ یہ گروپ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی ٹف ٹائم دے رہا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے یہاں آنے کے بعد اب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر پریشر کم ہونے کا امکان ہے۔عاطف خان گروپ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرشکیل خان جنہیں کچھ عرصہ قبل علی امین گنڈاپور نے اپنی کابینہ سے باہر کردیاتھا ، اب بھی ایوان میں ان کے خلاف تقریر کیلئے پر تول رہے ہیں لیکن بشریٰ بی بی کی تائید کے بعد اب ان کے مخالفین کیلئے یہ اس قدر آسان نہیں۔
ماضی میں دیکھاگیا ہے کہ بشریٰ بی بی کبھی کھل کر سامنے نہیں آئیں۔ عوامی سطح پر کبھی اس بات کا اقرار نہیں کیاگیا کہ وہ سیاسی معاملات میں حصہ لیتی ہیں لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ خیبرپختونخوا کی سابق حکومت کی حد تک ان کا اثرورسوخ تھا۔ اب بھی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کابینہ میں شامل ایک مشیر کو ان کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور ان کی جماعت کی قیادت جو بھی فیصلے کرے گی اب اس میں ان کی رضامندی اور مشورہ بھی ضرور شامل ہوگا۔ذرائع کے مطابق فی الوقت بشریٰ بی بی خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں لیکن آئندہ ہفتوں میں پارٹی کی سطح پر جو بھی فیصلے ہوں گے اس سے ان کی مداخلت یا عدم مداخلت کا اندازہ ہوجائے گا۔بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے پشاور آنے سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر ورکرز اور پارلیمانی لیڈروں کی جانب سے پریشر کم ہوا ہے۔ فی الوقت پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر سے زیادہ طاقتور شخصیت پارٹی میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت جب تک اقتدار سے باہر اور جیلوں میں تھی اس وقت بیرسٹر گوہر نے احسن طریقے سے پارٹی کے معاملات کو چلایا۔ ایسے سخت حالات میں جب پی ٹی آئی کا نام لینا بھی اس کے ورکروں کیلئے محال تھا اس جماعت کے وکلا پر مشتمل ٹیموں نے نہ صرف عدالتوں میں مقدمات لڑے بلکہ سیاسی میدان میں بھی مقابلہ کرتے رہے۔ اگرچہ عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی قیادت سے کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے لیکن پارٹی کو متحد رکھاگیا۔سیاسی قیادت کے اقتدار کے ایوانوں میں آتے ہی اندرونی اختلافات دوبارہ شروع ہوگئے۔ یہ اندرونی اختلافات ہی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کو نقصان پہنچایاہے۔ احتجاجی مظاہرے ہوں یا دھرنے یاپھر جلسے اس جماعت کے وہ رہنما جو پارٹی کا چہرہ سمجھے جاتے تھے اکثر غائب رہنے لگے۔ ان رہنماؤں نے ماضی قریب میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اب ایک بارپھر جلسوں جلوسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ پشاور ،کراچی اور کوئٹہ میں جلسے کئے جائیں گے، لیکن خیبرپختونخوا کے ورکر دوسرے کسی صوبے میں ہونے والے جلسے میںشرکت نہیں کریں گے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیرصدارت ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ پشاور کے جلسے میں پشاور ریجن کے لوگوں کو اکٹھا کیاجائے گا۔اس کی مختلف وجوہات بتائی جارہی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ پارٹی قیادت اب دیگرصوبوں میں بھی رہنماؤں اور ورکرز کو موبلائز کرناچاہتی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے جلسے جلوس ،احتجاج اور دھرنوں سے قبل اندرونی اختلافات ختم کرنا ہوں گے۔ اب بھی پارٹی کے کچھ ایم این ایز،سابق وزرا اور ایم پی ایزکے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق کوشش کی جارہی ہے کہ مسائل پیداکرنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کچھ نہ کچھ ایسا نکالاجائے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف محکمہ انسداد بدعنوانی کارروائی شروع کرسکے۔ ایک موجودہ اور ایک سابق وزیر کے خلاف تو انکوائری تقریباً مکمل کرلی گئی ہے۔ حالات بہتر ہوتے ہی شاید ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی شروع کردی جائے۔ پارٹی میں پشاور ریجن کی سطح پر بھی شدید اختلافات موجود ہیں جنہیں ختم کئے بغیر کوئی مربوط اور مؤثر تحریک چلانا مشکل ہے۔یہ بھی امکان نہیں رہا کہ ماضی کی طرح سرکاری وسائل کے ساتھ دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کی جائے۔ اسلام آباد جلسے میں خیبرپختونخواسے تعلق رکھنے والے سرکاری اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد سرکاری افسروں میں بے چینی پھیل گئی اور اب پہلے کی طرح زبانی احکامات پر عملدرآمد ممکن نہیں۔