یوم یکجہتی کشمیر
پانچ فروری ہر سال یوم یکجہتی ٔ کشمیر کے طور پر جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ۔عام تعطیل ،جلسے جلوس ،تقریروں اور مضامین کے ذریعے لوگ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے ماضی اور مستقبل کا جائزہ لیتے ہیں۔
یہ دن کشمیر میں 1988ء میں شروع ہونے والی ایک نئے انداز کی مزاحمت کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا گیا جو بعد ازاں مستقل صورت اختیار کر گیا ۔جب 1990ء میں کشمیر کے جلاد صفت گورنر جگ موہن کے اقدامات کے خلاف کشمیری نوجوان بڑی تعداد میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف مدد کیلئے پاکستان اور آزادکشمیر کی طرف دیکھنا شروع کیا تو پاکستان میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کشمیر کی تحریک سے اظہار یکجہتی کیلئے عام ہڑتال کی اپیل کی ۔اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا جس کے چند دن بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ہڑتال کی حمایت کی اس طرح یوم یکجہتی کشمیر منانے کا ایک سلسلہ چل پڑا جو تین عشرے سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اب یہ دن کشمیر اور پاکستان کے باہمی تعلق کی علامت بن چکا ہے ۔
پاکستان کے لوگوں کو اس دن یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ کشمیر پاکستان کے دفاع اور سالمیت سے جڑا ہوا ایک مسئلہ ہے ۔یہ ہمسائے کے گھر میں لگی آگ نہیں بلکہ اپنے گھر کے دالان میں بھڑکنے والے شعلے ہیں ۔کشمیر کی وادیوں میں اُلجھا ہو ا بھارت پاکستان کے وجود کو آج بھی کھلے دل سے تسلیم کر نے پر تیار نہیں۔ اسے جب بھی موقع ملتا ہے پاکستان کو زخم زخم کر گزرتا ہے ۔بھارت کو افغانستان میں پائوں رکھنے کی جگہ کیا ملی کہ اس نے اس ملک کو پاکستان کے خلاف سازشوں کا اڈہ بنادیا اور بلوچستان سے وزیر ستان تک ایک منظم دہشت گردی کی لہر اُٹھا دی ۔یہ تو خیریت گزری کہ افواج ِپاکستان نے جرأت اور پامردی کے ساتھ اس دہشت گردی کا مقابلہ کرکے اسے پچھاڑ دیا وگرنہ بھارت نے ایک اور ’’سقوط ڈھاکہ ‘‘ کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی تھی ۔کشمیر ی مسلمان بھارت کی طاقت اور دبدبے کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھ کر برسرمیدان کھڑے ہیں ۔وہ بھارت کا ہر ظلم وجبر برداشت کر رہے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔ایک نسل کے بالوں میں میدانِ کارزار اور میدانِ عمل میں ہی چاندی اترتی ہے تو ایک اور تازہ دم نسل میدان میں نکل آتی ہے جس کے لبوں پر آزادی کے گیت ہوتے ہیں اور دلوں میں آزادی کی لگن۔
اس وقت بھی بھارت کی ساڑھے آٹھ لاکھ فوج مرکزی قوانین کا سہار ا اور اسرائیل جیسے اتحادیوں کی مدد سے کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت کو کچلنے میں مصروف ہے مگر آفرین ہے اس بہاد رقوم پر جو سنگینوں کے سائے تلے بھی آزادی کا نعرہ بلند کر رہی ہے ۔ بہت سے لوگ 5 فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کی حقیقت سے بے خبرہیں اس لئے یہ پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ 5 فروری کو کشمیر میں کیا ہوا تھا؟ بالخصوص جوان ہونے والی نسل اس دن کی اہمیت سے ناواقف ہے ۔ان کے لیے یہاں اُن واقعات کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں جو اس خصوصی دن کا موجب ہوئے۔ 1987ء میں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ان انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے نام سے ایسی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا جن کا نعرہ تھا کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے محاذ کو ایک نئی آواز اور آزادی کی آواز جان کر اس کا ساتھ دیا لیکن انتخابات میں چند ایسی نشستوں پر شدید دھاندلی ہوئی جہاں جوش وجذبہ زیادہ تھا۔
اس طرح کشمیری نوجوانوں کا ایک مؤثرحلقہ اس مقام پر پہنچا جہاں اسے جدوجہد کے کسی انقلابی انداز کی تحریک ملی ۔یوں 1988ء میں چند غیر منظم نوجوانوں نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔خو داُن کشمیری نوجوانوں ،اُن کی سیاسی قیادت ،نیم دلی سے اُن کی مدد کرنے والوں اور بھارت سمیت کسی کو بھی انداز نہیں تھا کہ یہ سرگرمی کشمیرکی مقبول جنگِ آزادی کا روپ دھا رلے گی۔ مگرڈیڑھ سال کے عرصہ میں کشمیر کی پوری آبادی ان انقلابی نوجوانوں کے گرد جمع ہو گئی۔ بھارت نے اس تحریک کا زور توڑنے کیلئے دسمبر 1989ء کی یخ بستہ راتوں میں لوگوں کو گھروں سے نکال کر قطاروں میں کھڑا کرنا ،خانہ تلاشی اور جامہ تلاشی کے نام پر مرد و خواتین کو ذلیل کرنا شروع کر دیا جسے کشمیریوں نے اپنی عزت پر حملہ قرارد یا اور وہ زیادہ قوت سے مسلح تحریک کی حمایت کرنے لگے۔
حد تو یہ کہ خواتین اپنے پھیرن میں اسلحہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے لگیں اور سرکاری ملازمین سرکاری گاڑیوں میں حریت پسندوں کی نقل و حرکت اور رسد کو آسان بنانے لگے۔اُس وقت کے گورنر کشمیر جگ موہن نے ان حالات کی تصویر کشی کرتے اپنی کتاب ’’My Frozen Turbulence in Kashmir‘‘میں لکھا تھا کہ کشمیر پر پاکستان کو پرچم لہرا چکا تھا اور یہ بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا تھا مگر میں کشمیر کوبھارت کیلئے بچا کر واپس لایا۔
بھارت نے کشمیریوں کی اس جدوجہد کو کچلنے کیلئے فوجی کی تعداد بڑھادی۔فوج کو ڈسٹربڈ ایریا زایکٹ کے تحت خانہ تلاشی ،گرفتاریوں،بغیر مقدمہ چلائے نظربند رکھنے ،قتل و آبروریزی سمیت ہر قسم کاا ختیاردے دیا اورفوج نے اس اختیار کا بے رحمی سے استعمال شروع کر دیا۔بھارتی فوجیوں کو فقط یہ بتایا گیا تھاکہ کشمیری بھارت کو چھوڑ اور توڑ کر پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ جو چاہو کرو۔اس دوران کشمیری نوجوان مسلح جدوجہد کو رومینٹسائز کرنے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں وادی کے نوجوان نیلم اور لیپہ کی بلند وبالا برف پوش گھاٹیوں سے مظفر آباد میں اترنے لگے۔ یہاں اس وقت سردار سکندرحیات خان کی حکومت تھی ۔آزادکشمیر حکومت ایک محدود اختیار اور محدود مینڈیٹ کی حامل ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر سکتی تھی۔
حکومتِ پاکستان بھی بین الاقوامی دبائو کے پیش نظر محتاط تھی ۔پاکستانی میڈیا بھی مظفر آباد کی خبر کو سری نگر ڈیٹ لائن سے چھاپتا تھاتاکہ پتہ چلے کہ ان سرگرمیوں کا تعلق وادی کی داخلی حدود سے ہے ۔آزادکشمیر میں بیٹھے کسی کمانڈر کی خبر بھی سرینگر ڈیٹ لائن سے چھپتی تھی۔ان حالات میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے اعلان کیا کہ بھارتی مظالم سے تنگ آکر ہزاروں کشمیری آزادکشمیر آرہے ہیںمگرپاکستان اور آزادکشمیر کی حکومتیں ان کی مدد نہیں کر رہی اس لئے قوم آگے بڑھ کر ان کی مدد کرے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے 5 فروری1990ء کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے عام ہڑتال کاا علان کیا۔اُس وقت کی وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیربھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا۔اس کے بعد یہ دن ایک قومی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔یہ دن کشمیریوں کی اُس جنگِ آزادی کے ساتھ پاکستانی عوام کی یکجہتی اور حمایت کی یادگار اور علامت بن چکاہے۔
5 اگست2019ء کو بھارت نے مسئلہ کشمیر کی بساط اُلٹ ڈالی اور کشمیر کے متنازعہ اور حل طلب ہونے کی علامتوں کو ختم کر کے رکھ دیا ۔بھارت کشمیر کو اپنے تئیں ہضم کرنے کے بعد اب آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کی رُو سے یہ علاقے بھارت کا حصہ ہیں ۔بھارت کو اپنے عزائم سے باز رکھنے کیلئے چین کا دبائو سب سے مؤثر رہا ہے جس نے 5 اگست کے بعد گلوان وادی اور پنگانگ جھیل میں پیش قدمی کرکے بھارت کو بھرپور سبق سکھایا۔
مقبوضہ کشمیر ،موجودہ صورتحال
2019 میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی جس کے بعد وادی میں سخت کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، میڈیا بلیک آؤٹ اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے بعد سے پاکستان کی سفارتی اور عوامی سطح پر حمایت مزید بڑھ گئی ہے اور عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر پر مرکوز کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کے حل پر زور دیا ہے۔
سفارتی سطح پر پاکستان نے کئی بار مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا ہے، جبکہ عوامی سطح پر بھی یکجہتی کے اظہار کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر صرف ایک دن نہیں بلکہ مظلوم کشمیری عوام کی جدوجہد میں ساتھ دینے کی علامت ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اپنے بنیادی حقوق اور آزادی کیلئے برسرپیکار ہیں اور ان کی حمایت جاری رکھنا ہماری قومی و انسانی ذمہ داری ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا یہ جدوجہد جاری رہے گی۔
یوم یکجہتی کشمیر کی اہم سرگرمیاں
ایک منٹ کی خاموشی: پورے ملک میں صبح 10 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے تاکہ کشمیری شہداکو خراج ِعقیدت پیش کیا جا سکے۔
انسانی ہاتھوں کی زنجیر: پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر لوگ ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ریلیاں اور مظاہرے: سیاسی و سماجی تنظیمیں اور طلبہ مختلف شہروں میں کشمیر کے حق میں مظاہرے اور جلوس نکالتے ہیں۔
میڈیا اور تعلیمی ادارے: اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر کشمیری عوام کے مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔