قیادت میں اختلافات اور اثرات

تحریر : عابد حمید


پاکستان تحریک انصاف کے آٹھ فروری کے جلسے کو ناکام تو نہیں کہا جاسکتا مگریہ اتناکامیاب بھی نہیں تھا۔گزشتہ ہفتے ان سطور میں کہاگیاتھا کہ یہ جلسہ پی ٹی آئی کے مستقبل کا تعین کرے گا اوراس جلسے سے پارٹی میں اختلافات کی نوعیت کابھی اندازہ ہوگا۔جلسے کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ متاثرکن نہیں۔

جتنے دعوے اور وعدے سوشل میڈیا پر کئے گئے تھے وہ صوابی جلسے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔پی ٹی آئی ماضی قریب میں جتنے بڑے جلسے کرتی رہی ہے اس کی نظیرنہیں ملتی لیکن  اب صورتحال یہ ہے کہ سوشل میڈیاپر کئی دن شور مچانے کے باوجود یہ جماعت پہلے جیسا رنگ جمانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟کیا پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہوئی ہے؟اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت بالخصوص خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ہے۔ دراصل یہ اس مقبول پارٹی کے اندرونی اختلافات ہیں جو اس کی ہر سعی کو  متاثر کررہے ہیں ۔علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سونپنے کے بعد سے جو اختلافات شروع ہوئے تھے وہ اب عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ گروپ بندی نے پارٹی کی کارکردگی پراثر ڈالا ہے۔ پرانے رہنماؤں کو سائیڈ لائن کرنے سے بھی پارٹی کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے ۔جو کسر رہ گئی تھی وہ جنید اکبر کو صوبائی صدر بنانے سے پوری کر دی گئی ہے۔ جنید اکبر ہر تقریر میں طنز وتشنیع کے تیر برسارہے ہیں۔ ایک طرف علی امین گنڈاپو رکی معتدل پالیسی ہے جس میں اگرچہ ان کے الفاظ سخت ہوتے تھے لیکن عملی طورپر وہ کوئی بھی ایسا قدم اس حدتک نہیں اٹھارہے تھے جس سے ان کی حکومت کو گزند پہنچے ۔ مگر جنید اکبر اس کے برعکس جارحانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی جنید اکبر کی جانب سے مقتدرہ پر تنقید کی جاتی تھی ‘اب بھی وہ سخت لہجہ اپنائے ہوئے ہیں ۔آٹھ فروری کے جلسے میں بھی یہ تلخ وشیریں صورتحال دیکھنے کو ملی۔ جلسے میں کہیں بھی پارٹی ڈسپلن نظر نہیں آیا۔جلسے سے ایک روز قبل تک سیاسی گہماگہمی نہیں تھی‘ ماحول ٹھنڈاتھا جس کے اثرات اگلے دن جلسہ گاہ میں بھی نظرآئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار جلسے میں آنے والوں کی تعداد پنجاب سے زیادہ تھی۔ خیبرپختونخوا سے کم لوگ نکلے یا نکالے گئے۔ عاطف خان سمیت متعدد رہنما موجود تھے لیکن ان کی شرکت علامتی لگی۔ پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر بھی تاخیر سے جلسہ گاہ پہنچے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس جلسے کو کامیاب قراردیاگیا ہے لیکن اس سے اختلاف کی کافی گنجائش موجود ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کااصولی مؤقف یہی ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ طورپر دھاندلی ہوئی تھی ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے وہ صوابی جلسے میں کھل کرعوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ یوں محسوس ہورہاتھا کہ جلسے کا انعقاد عجلت میں بغیر تیاری کے کئے جارہاہے ۔اس بات کا اعتراف پی ٹی آئی کے اپنے مرکزی رہنما شوکت یوسفزئی بھی کر چکے ہیں‘ جن کے مطابق جلسہ بدنظمی کا شکار رہا اور مرکزی رہنما اس وقت سیٹ سیٹ کھیل رہے ہیں ۔پی ٹی آئی کے وہ رہنماجو سب سے زیادہ دھاندلی کاشور مچاتے ہیں وہ بھی کہیں نظر نہیں آئے۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصا ف کی صفوں میں اختلافات موجود ہیں اور ان اختلافات کو ختم کرنے کیلئے پارٹی میں کوئی بھاری شخصیت موجود نہیں ۔کارکنوں میں قیادت پر اعتماد کا بھی فقدان ہے۔ عدم اعتماد کی یہ کیفیت بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے کی جانے والی کوششوں میں حائل ہورہی ہے ۔صوبائی صدارت جانے سے جہاں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اختیارات میں کمی واقع ہوئی ہے تو دوسری طرف اُن پر سیاسی دباؤمیں کمی بھی آئی ہے۔ یعنی اگرایک طرف وزیراعلیٰ کو اختیارات میں کمی کا نقصان اٹھاناپڑا تو دوسری طرف یہ فائدہ بھی ہوا کہ اب وہ صوبے کے مسائل کی طرف توجہ دے سکیں  گے جس کیلئے انہیں عوام نے چُنا ہے ۔شنید ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رضامندی کے بعد کابینہ میں تبدیلی کی جاسکے گی۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ کچھ پرانے چہروں کی کابینہ میں واپسی ممکن ہوسکے۔ اگرچہ فی الوقت یہ مشکل نظرآرہاہے لیکن اگر  علی امین گنڈاپور انہیں راضی نہ کرسکے تو یقینا کابینہ میں ردوبدل کیاجاسکے گا۔

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی گزشتہ چندماہ کی کارکردگی کاجائزہ لیاجائے تو ابھی تک یہاں کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔ پہلے میگا منصوبے کا اعلان گزشتہ روزوزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کیا ہے اور وہ ہے ڈی آئی خان موٹروے کی تعمیر۔اس وقت صوبہ سرپلس جارہاہے ،معاشی اشاریے مثبت آرہے ہیں ،یہی وقت ہے کہ کچھ بڑے اور فلاحی منصوبے شروع کئے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ دو سال خیبرپختونخوا کی مالی حالت انتہائی پتلی رہی، تنخواہ کے پیسے ہی بمشکل پورے کئے جارہے تھے لیکن اب معاشی حالات  کسی حد تک بہتر ہوئے ہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ کو ضم شدہ قبائلی اضلاع کی جانب توجہ دینی چاہیے جواس جدید دورمیں بھی دیگر شہروں سے بہت پیچھے ہیں۔ امن وامان کی بہتری کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور وفاق کے ساتھ مل کراس حوالے سے کام کرنا ہوگا۔خیبرپختونخوا حکومت نے دو وفود افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کررکھا ہے ۔اس فیصلے پر بھی جلد سے جلد عملدرآمد ضروری ہے۔ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کی ترجیحات میں ان اضلاع کی سڑکوں کی فوری تعمیر ومرمت بھی شامل ہے جو دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ان میں ٹل پاڑہ چنار روڈ،مہمند افغانستان روڈ اور ڈی آئی خان موٹروے شامل ہے، تاہم فنڈز کی کمی ان منصوبوں کے آڑے آرہی ہے ۔قبائلی اضلاع میں فوری طورپر تیز ترقیاتی پروگرام بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا میں اس وقت ہرطرف احتساب کی بازگشت ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سرزنش کے بعد محکمہ انسداد بدعنوانی کو وسیع اختیارات دینے کی تیاری کی جارہی ہے ۔اس حوالے سے محکمہ اینٹی کرپشن کے قوانین میں تبدیلی کی جارہی۔ محکمے کو مزید اختیارات دینے کافیصلہ کیاگیا ہے جو وزیراعلیٰ کے مشیر بریگیڈئیر(ر)مصدق عباسی کی جیت سمجھی جارہی ہے۔ اس وقت وزیراعلیٰ کے مشیر کو بڑے پیمانے پر اختیارات حاصل ہیں جو وزیراعلیٰ کے بجائے بانی پی ٹی آئی کو رپورٹ کرتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن کو وزیراعلیٰ سمیت ایم پی ایز کے خلاف بھی تحقیقات کا اختیار دینے پر غور کیاجارہا ہے۔ اس حوالے سے تجاویز تیارکرلی گئی ہیں جس کی جلدہی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ محکمہ اینٹی کرپشن کے اختلافات کے حوالے سے مصدق عباسی کی جانب سے صوبائی حکومت پر قوانین میں تبدیلی کیلئے کافی عرصے سے اصرارکیاجارہاتھا لیکن ان کی شنوائی نہیں ہورہی تھی ۔ اب بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر انہیں اختیارات دینے کا عمل شروع کردیاگیا ہے ۔محکمہ اینٹی کرپشن اب گریڈ بیس تک کے افسروں کے خلاف کسی بھی شکایت کی انکوائری کرسکے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔