اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے دُعا مانگو !
دعا کے اوّل وآخر میں حق تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا چاہیے(صحاح ستہ) اخلاص کے ساتھ دعا کرنا یعنی دل میں یقین رکھنا کہ اللہ کے علاوہ کوئی ہمارا مقصد پورا نہیں کر سکتا (حاکم فی المستدرک)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’بندہ کی دعا قبول کی جاتی ہے بشر طیکہ وہ کوئی گناہ کرنے، کسی کا رشتہ توڑنے کی دعا نہ مانگے، اور جب تک کہ وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ! جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’جلد بازی یہ ہے کہ انسان یوں کہے میں نے دعا مانگی پھر میں نے دعا مانگی لیکن دعا مجھے قبول ہوتی نظر نہیں آئی، پھر وہ مایوس ہوکر بیٹھ جائے اور دعا کو چھوڑ دے‘‘۔(رواہ مسلم)
حضرت رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دعا مؤمن کا ہتھیار ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ہتھیار اس وقت صحیح کام کرے گا جب اس کے آداب پورے ہوں۔ اسی طرح دعا کا محل اور وقت بھی قبولیت کا ہو۔ مولانا مفتی محمد شفیع نے ’’ احکام الرجأ فی احکام الدعا‘‘ میں وہ آداب دعا بیان فرمائے ہیں جو معتبر احادیث سے ماخوذ ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی وقت ان تمام آداب کو یا بعض آداب کو جمع نہ کرسکے تو پھر بھی دعا ضرور مانگے۔ دعا کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑ ے۔ آداب کے ساتھ اس حدیث کی کتاب کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے۔
٭:کھانے پینے، پہننے اور کمانے میں حرام سے بچنا۔ (مسلم وبخاری)
٭:اخلاص کے ساتھ دعا کرنا یعنی دل میں یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ہمارا مقصد پورا نہیں کر سکتا۔ (حاکم فی المستدرک)
٭:دعا سے پہلے کوئی نیک کام کرنا۔ (مسلم)
٭:پاک وصاف ہوکر دعا کرنا۔ (ابن حبان)
٭:وضوکے بعد دعاکرنا۔ (صحاح ستہ)
٭:دعا کے وقت قبلہ رخ ہونا۔ (صحاح ستہ)
٭:دوزانو ہوکر بیٹھنا۔ (ابوعوانہ)
٭:دعا کے اوّل وآخر میں حق تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا۔ (صحاح ستہ)
٭: دعا کے اوّل وآخر نبی کریمﷺ پر درود بھیجنا۔ (ابوداؤد)
٭:دعا کیلئے دونوں ہاتھ پھیلانا۔ (ترمذی)
٭:دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھانا۔ (ابوداؤد)
٭:ادب وتواضع کے ساتھ بیٹھنا۔ (مسلم)
٭:اپنی محتاجی اور عاجزی کا ذکر کرنا۔ (ترمذی)
٭:دعا کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھانا۔ (مسلم)
٭:اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کا ذکر کرکے دعا کرنا۔ (ابن حبان)
٭: الفاظ دعا میں قافیہ بندی کے تکلف سے بچنا۔ (بخاری)
٭:دعا اگر نظم میں ہو تو گانے کی صورت سے بچنا۔(حصن)
٭:دعا کے وقت انبیاء علیہم السلام اور دوسرے مقبول اور صالح بندوں کو وسیلہ بنانا (یعنی یہ کہنا اے اللہ ان بزرگوں کے طفیل سے میری دعا قبول فرما)۔ (بخاری)
٭:دعا میں آواز پست کرنا۔ (صحاح ستہ)
٭:ان دعاؤں کے ساتھ دعا کرنا جو رسول اللہﷺ سے منقول ہیں کیونکہ آپﷺ نے دین ودنیا کی کوئی حاجت نہیں چھوڑی جس کی دعا تعلیم نہ فرمائی ہو۔ (ابوداؤد)
٭: ایسی دعا کرنا جو اکثر دینی و دنیوی حاجت میں شامل ہو۔ (ابو داؤد)
٭: دعا میں پہلے اپنے لیے دعا کرنا پھر اپنے والدین اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو شریک کرنا۔ (مسلم)
٭: اگر امام ہو تو تنہا اپنے لیے دعا نہ کرے بلکہ سب شرکائے جماعت کو دعا میں شریک کرے۔ (ابوداؤد)
٭: عزم کے ساتھ دعا کرے (یعنی یوں نہ کہے اے اللہ اگر تو چاہے تو میرا کام کردے) (صحاح ستہ)
٭: رغبت اور شوق سے دعا کرے۔ (ابن حبان)
٭:جس قدر ممکن ہو دل کو متوجہ رکھنے کی کوشش کرے اور دعا کے قبول ہونے کی قوی امید رکھے۔ (مستدرک)
٭: دعا میں تکرار کرنا یعنی بار بار دعا کرنا۔ (بخاری ومسلم)
٭: دعا میں الحاح یعنی اصرار کرے۔ ( نسائی)
٭: ایسی چیز کی دعا نہ کرے جو طے ہو چکی ہو (مثلاً عورت یہ دعا نہ کرے کہ میں مرد ہوجاؤں یا طویل آدمی یہ دعا نہ کرے کہ میرا قد چھوٹا ہوجائے وغیرہ)۔ (نسائی)
٭: کسی گناہ یا قطع تعلقی کی دعا نہ کرے۔ (مسلم)
٭: کسی ناممکن چیز کی دعا نہ کرے۔ (بخاری)
٭: اللہ تعالیٰ کی رحمت کو صرف اپنے لیے مخصوص کرنے کی دعا نہ کرے۔ (بخاری)
٭:اپنی تمام حاجات صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرے، مخلوق پر بھروسہ نہ کرے۔ (ترمذی)
٭: دعا کرنے والا بھی آخر میں آمین کہے اور سننے والا بھی آمین کہے (بخاری)۔ (آمین کا مطلب ہے اے اللہ میری دعا قبول فرما)
٭:دعا کے بعد دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پر پھیرے۔ (ابوداؤد)
٭:دعا کی قبولیت میں جلدبازی نہ کرے یعنی یہ نہ کہے میں نے دعا کی ابھی تک قبول کیوں نہیں ہوئی۔ (بخاری)
ان آداب کا خیال رکھ کر دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوگی۔ قبولیت کی شکل کیا ہوگی اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جب دعا کرے تو بسا اوقات بالکل وہی دعا قبول ہوکر مقصود مل جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ وہ مقصود اس بندہ کیلئے خیر نہیں سمجھتے تو اس کا بدل عطا فرما دیتے ہیں اور اگر نہ اصل مقصود عطا فرمائیں نہ بدل عطا فرمائیں تو پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرماتے ہوئے اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اگر بندے کے ذمہ گناہ نہ رہیں تو پھر دعاؤں کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب عطا فرماتے ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بندہ اگر رسول اللہﷺ کے ارشادات کے مطابق آداب کا خیال رکھ کر دعا مانگے تو وہ دعا ہر صورت میں قبول ہوتی ہے، قبولیت کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن دعا رائیگاں نہیں جائے گی۔