میاں بیوی کا رشتہ! ایک دوسرے کی عزت و زینت کا سبب

تحریر : مولانا محمد اکرم اعوان


مرد وں کوفارغ ہو گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹا نا چاہیے، خود نبی کریم ﷺ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ساتھ خانگی امور میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے

میاں اور بیوی کا رشتہ اللہ کریم کے نام پر اور اس کے بتائے ہوئے طریقے سے قائم ہوتا ہے۔اسلام نے ازدواجی تعلقات کو ایک شرعی حیثیت دی اور اس کی حدود و قیود مقرر فرمائیں۔کن رشتوں میں شادی ہو سکتی ہے اور کیسے رشتے ہیں جو ایک دوسرے پر حرام ہیں،جن میں شادی نہیں ہو سکتی ۔جن میں ہو سکتی ہے ان میں اتنے ہی حقوق خواتین کو دیے جتنے مردوں کو دیے۔ دونوں ذمہ دار ہیں اور دونوں برابر کے حصے دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ھن لباس لکم و انتم لباس لھن ’’وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو‘‘ یعنی ازدواجی تعلقات کو اتنا حسن دیا کہ ایک نیا رشتہ شروع ہو جاتا ہے اور ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔یہ تعلق لوگوں کو قریب لانے کا سبب بنتا ہے جبکہ عام معاشرے میں یہ فساد کا سبب تھا۔ 

اسلام نے اسے خوب صورت موڑ دیا کہ وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بن گیا۔پھر میاں بیوی کیلئے جامع بات ارشاد فرمادی کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم عورتوں کا لباس ہو، بیویوں کا لباس ہو۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ لباس ستر پوشی کرتاہے، پر دہ پوشی کرتا ہے، پورے وجود کو ڈھانپ لیتا ہے اور پورے وجود کی پردہ داری رکھتا ہے۔ 

میاں بیوی میں سے اگر کسی میں کوئی چھوٹی موٹی غلطی بھی ہو یا کسی سے قصور بھی ہو جائے تو اسے اشتہار نہ بنایا جائے،ایک دوسرے کو بدنام نہ کیا جائے۔ یہ میاں بیوی دونوں پر برابر واجب ہے کہ اگر میاں سے قصورہوتا ہے تو بیوی اس کا لباس ہے، اس سے بات کرے لیکن اس بات کو عام نہ کرے۔ اسی طرح اگر بیوی سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو میاں کا کام ہے کہ اس سے بات کرے، اس کی اصلاح کی کوشش کرے لیکن اسے عام نہ کرے لباس صرف ستر پوشی نہیں کرتا،لباس عزت اور زینت کا سبب ہوتا ہے۔ لہٰذا میاں بیوی کو ایک دوسرے کیلئے عزت کا سبب بننا چاہیے، ایک دوسرے کی زینت کا سبب بننا چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ لباس گرم وسرد سے بھی بچاتا ہے۔ گرمیوں کا لباس الگ اور سردیوں کا الگ ہوتا ہے۔گرمیوں کا لباس گرمی کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے،سردیوں کا سردی کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے۔گویا میاں بیوی کا رشتہ بھی ایسا ہے کہ دنیوی امور میں، مشکلات میں ،دنیوی تکالیف میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کو تحفظ دیں ۔یعنی ایک خاتون نے، ایک مرد نے اللہ کے نام پر رشتہ جوڑا ہے۔اللہ نے انھیں ایک دوسرے پر حلال کردیا ہے تو اب ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ جیسے خاتون کی ذمہ داری ہے کہ مرد کماکر لاتا ہے تو اس کے مال میں اسراف نہ کرے،اس کو ضائع نہ کرے، اس کے مال کی حفاظت کرے، اس کے بچوں کی اچھی تربیت کرے، اس کی آبرو کی حفاظت کرے۔ اسی طرح مرد کے ذمے ہے بھی ہے کہ وہ خاتون ضروریا ت پوری کرے، اسے تنگ نہ کرے، اس کا احترام کرے،اس کے والدین اور اس کے بہن بھائیوں سے محبت سے پیش آئے اور اسے ہرطرح کا تحفظ فراہم کرے۔ یہ عورت کا شرعی حق ہے۔ اگر کوئی خاوند بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو عورت کے پاس راستہ کھلا ہے کہ وہ خلع حاصل کرسکتی ہے اور قاضی کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کو ختم کردے۔

آج عورتوں کے حقوق کی بات ہور ہی ہے اور بڑی عجیب بات ہے کہ جو لوگ عورتوں کے حقوق بری طرح پامال کر رہے ہیں وہی حقوقِ نسواں کے مدعی بنے ہوئے ہیں۔ خود ان لوگوں نے اور ان اقوام نے خاتون کو انتہائی ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیا ہے۔ چند سکوں کے چھوٹے چھوٹے پراڈکٹ بیچنے کیلئے عورت کو اشتہار بنا دیا ہے۔اس کی حرمت کو مجروح کردیا ہے۔ اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں چھوڑی اور برابری کے حقوق صرف یہ دیے ہیں کہ مردوں کے ساتھ اسے بھی مشقت کے میدان میں جوت دیا ہے لیکن بحیثیت خاتون اس کا جو اعزاز تھا وہ سارا چھین لیا ہے۔ 

اسلام سے پہلے بھی یہی عالم تھا کہ عورتوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتاتھا بلکہ استعمال کی چیز سمجھا جاتا تھا۔ خریدوفروخت ہوتی،قتل کردیتے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا اور جہاں ڈاکے پڑتے، قتل و غارت گری ہوتی،لوگ مال لوٹتے ،وہاں عورتیں اور بچے بھی لوٹ کر لے جاتے۔ بچوں کو غلام بنا کر بیچ دیتے اور عورتوں کو بیچ کر پیسہ کما لیتے۔ ان کی کوئی حرمت، کوئی احترام نہیں تھا ۔ پہلی دفعہ غالباً چھٹی صدی عیسوی کے نزدیک رومیوں نے ایک قانون بنایا جس میں عورت کو انسان تسلیم کیا گیا۔قانونی طور پرتو اسے انسان ہونے کا درجہ دیا گیالیکن اس قانون میں بھی اسے یہ درجہ دیا گیا کہ یہ انسان تو ہے لیکن مرد کی خدمت کیلئے پیدا ہوئی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی قانون تھا لیکن اس میں بھی عورت کی بحیثیت عورت کوئی عزت،کوئی حرمت نہیں تھی۔

یہ احسان بھی نبی کریم ﷺ کا،اسلام اور دین برحق کا ہے کہ خاتون کو برابر کا انسان قرار دیا۔ اسلام نے یہ بتایا کہ جس طرح خاتون کے ذمے حقوق ہیں، اسی طرح خاتون کو بھی حقوق حاصل ہیں ۔ کسی کو کسی پر اس طرح برتری حاصل نہیں ہے کہ یہ عورت ہے اور یہ مرد ہے بلکہ برتری کا معیار اس کا کردار، اس کے اعمال، اس کا ایمان،اس کی عقیدت اور اس کا حسن عمل ہے۔خاتون اورمرد کے وجود میں، جسمانی ساخت میں بھی فرق ہے،مزاجوں میں بھی فرق ہے اور اس اعتبار سے ان کے فرائض میں فرق رکھا گیا۔فرائض میں فرق ہے ، فرائض کی صورت میں فرق ہے لیکن ذمہ داری میں فرق نہیں ہے۔ اتنی ہی عورت کی ذمہ داری ہے جتنی مرد کی ذمہ داری ہے۔ ایک ہی میدان میں دونوں کا حساب ہو گا،ایک جیسے اعمال پر ایک جیسا صلہ ملے گا، ایک ہی جنت ہے اور ایک ہی جہنم ہے مرد و عورت،دونوں کیلئے ہے۔جہنم میں اگر اپنے کردار سے، اپنے کفر کی وجہ سے مرد جائیں گے تو کافر عورتیں بھی جائیں گی۔ جنت میں اگر اہل ایمان جائیں گے تو اہل ایمان خواتین بھی جائیں گی۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ مزاج اور وجود کے اختلاف کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں بھی مختلف کر دی گئیں لیکن بحیثیت انسان،دونوں انسان ہیں،دونوں برابر مکلف ہیں اور دونوں کے حقوق برابر ہیں۔جتنا مرد کا حق ہے کہ عورت اس کے مال کی حفاظت کرے، اس کا احترام مدنظر رکھے،اس کی آبرو کی حفاظت کرے اور ہر مشکل میں اس کا ساتھ دے۔ اسی طرح مرد کے ذمہ بھی واجب ہے کہ عورت کی آبرو کا لحاظ رکھے،،اس کی آبرو کی حفاظت کرے ، اس کے اہل خاندان کا احترام کرے، اس کے ساتھ بنا کے رکھے، اس کو تنگی نہ آنے دے۔ حتی الامکان جتنی محنت کرسکتا ہے، جو کما کے لاتا ہے وہ اسے دے اور بچوں کی تربیت میں اس کا ہاتھ بٹائے۔مرد فارغ ہو گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹا نا چاہیے۔

خود نبی کریم ﷺ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ خانگی امور میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مقیم تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کھاناذرا جلدی بنادو کہ باہر لوگ تیار کھڑے ہیں اور مجھے ان کے ساتھ جانا ہے۔وہ جب آگ جلانے لگیں تو آٹا گوندھا ہوا پڑھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرما یا: تم آگ جلائو،میں اتنے میں روٹی بنا لیتا ہوں،جلدی ہوجائے گی۔روٹی بن گئی تو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے توے پہ ڈال دی۔اب حضور ﷺ منتظر ہیں، آگ جل رہی ہے،توا گرم ہے،حضور ﷺ کو جلدی بھی ہے اور آٹا ویسے کا ویسے توے پر پڑا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ دیر ہورہی ہے۔انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ !آپ ﷺ نے جس آٹے کی روٹی بنائی ہے،آپ ﷺ کے ہاتھ جس کو لگے ہیں،آگ تو اس پر اثر نہیں کررہی۔ میں نے تو عرض کیا تھا کہ مجھے بنانے دیجئے۔ یعنی اس حد تک حضور اکرم ﷺ خانگی امور میں تعاون فرماتے تھے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔