فضل الرحمن کی منصورہ آمد ایم ایم اے کا تجربہ دہرایا جا سکتا ہے ؟

حکومت کی جانب سے دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے فیصلہ کو ایک اہم ایشو پر مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔
نہروں کی تعمیر کے عمل پر پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ دبائو کا سامنا ہے اور جوں جوں پیپلزپارٹی پر دبائو بڑھتا گیا پیپلزپارٹی اس حوالے سے وفاقی حکومت پر دبائو ڈالتی گئی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر ذمہ داران پریس کانفرنسوں اور جلسے جلوسوں کے ذریعہ حکومت پر دبائو ڈالتے نظر آئے اور متعدد بار بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کیلئے اپنی جماعت سے ہاتھ کھینچنے کا عندیہ بھی دیا ۔ یہاں تک کہہ ڈالا کہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وفاق پربھی اثر انداز ہوگا۔ مذکورہ صورتحال میں وفاقی حکومت خصوصاً وزیراعظم شہبازشریف یہ کہتے نظر آئے کہ جو بھی فیصلہ ہوگا پیپلزپارٹی کی مشاورت سے ہوگا ۔ انہوں نے اس ضمن میں اپنے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کو یہ مشن سونپا کہ وہ پیپلزپارٹی سے رابطہ کرکے انہیں مطمئن کریں؛چنانچہ مسلم لیگ( ن) کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ نے حالیہ دنوں میں دو مرتبہ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ جس منصوبہ کی تعمیر پر پیپلزپارٹی کو اعتراض ہے وہ پیپلزپارٹی سے مشاورت کے بغیر نہیں بنے گا۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنے رویے پر نظر ثانی کی اور بات مذاکرات پر آ گئی اور وزیراعظم شہبازشریف نے اسحاق ڈار کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جس میں احسن اقبال اور رانا ثنا اللہ سمیت دیگر شامل ہوں گے ۔ کمیٹی میں آبی و زرعی ماہرین کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے حوالے سے یہ خبریں بھی ہیں کہ وہ اس حوالے سے صدر مملکت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کریں گے اورپیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع بتاتے ہیں کہ پارٹی لیڈر نوازشریف اور وزیراعظم شہبازشریف کے درمیان طے ہوا تھا کہ نہروں کے ایشو پر حتمی فیصلہ پیپلزپارٹی کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا اور رانا ثنا اللہ کو اس حوالے سے ٹاسک دیا گیا تھا کہ پیپلزپارٹی سے رابطہ کریں گے اور اُنہی کے رابطوں کے بعد مذکورہ پیش رفت ہو گی۔ اس وقت معاملہ پانی کی تقسیم کا نہیں بلکہ نئی نہروں کی تعمیر کا ہے۔ (ن) لیگ اور حکومت سمجھتی ہے کہ پانچ نہروں پر تو معاملات آگے چلنے چاہئیں مگر چھٹی نہر پر تب پیش رفت ہو گی اگر پیپلزپارٹی گرین سگنل دے گی۔ حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی مذاکراتی کمیٹی کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ نہروں کے منصوبے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے گا اور اس منصوبے کے تمام پہلوئوں کی فنی جانچ پڑتال بھی کی جائے گی۔ مذکورہ اہم ایشو پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور خصوصاً وزیراعظم شہبازشریف کے سیاسی طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ افہام و تفہیم سے مسائل کا حل نکل آتا ہے۔پانی کی تقسیم کے فارمولے پر تو عمل درآمد جاری رہا ہے البتہ گرین پاکستان منصوبے کے تحت صحرائی زمینوں کو قابل کاشت بنانے کا جو پروگرام شروع کیا گیا ہے پہلے پہل تو اس پر کوئی اعتراض نہ اٹھا اور پیپلزپارٹی نے بھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن اندرون سندھ قوم پرستوں کے ردعمل اور احتجاج کے بعد اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے ساتھ مل گئیں تو پیپلزپارٹی کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہ تھا،لیکن وفاقی حکومت نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مذاکرات کے آپشن کو بروئے کار لاکر پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہو تے ہیں؟ اس کا انحصار وفاقی حکومت پر ہے ۔بظاہر امکان یہی ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کر ے گی۔
سندھ میں پانی کا مسئلہ ہے تو پنجاب میں گندم کسانوں کی پریشانی کا موجب ہے۔ ماضی میں ملنے والی سپورٹ پرائس کی وجہ سے گندم کی بمپر کراپ ہوتی تھی لیکن گزشتہ دو سالوں میں گندم کی بڑی فصل کے باوجود گندم کی درآمد کی وجہ سے کسان بیچارا اپنی سال بھر کی محنت اور خون پیسنے کی کمائی کے جائز دام حاصل نہیں کر سکا۔ پنجاب حکومت نے زراعت کے حوالہ سے کئی اعلان کرکے کسانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر اربوں کے پیکیچز کے باوجود کسان مطمئن نہیں ۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کاشتکاروں کیلئے 110 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا ہے اور گندم کے کاشتکاروں کیلئے 25ارب کے ویٹ فارمر سپورٹ پروگرام کے امدادی پیکیج کی منظوری بھی دی ہے۔ حکومت کی جانب سے گندم کے کاشتکاروں کیلئے ان پیکیجز کے باوجود کسان مطمئن نہیں تو اس کی کوئی وجہ توہو گی،اس کا پتہ لگانا ضروری ہے ۔ ذمہ دار حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت کو کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے گندم کی سپورٹ پر ائس کا اعلان کر دینا چاہئے تھا۔ اگر گندم کی قیمت تین ہزار روپے فی من کا اعلان ہو جاتا تو کم از کم نجی شعبہ فلور ملز اور دیگر پر دبائو تو رہتا۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ کسان کو حکومت کے ممکنہ اقدامات کے باوجود اپنی گندم کے مناسب پیسے نہیں مل رہے اور کسان اپنی گندم سٹور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اسے گندم بیچ کر اپنے معمولاتِ زندگی چلانے ہیں۔ اگر حکومت بڑے پیکیجز کی بجائے کسان کی گندم کی خریداری کا بندوبست کرتی تو ایسی پریشان کن صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت اسلامی کے مرکز آمد اور جماعت کے امیر حافظ نعیم الرحمن اور دیگر سے ملاقات کو ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بظاہر ملاقات کا مقصد جماعت اسلامی کے سینئر رہنما پروفیسر خورشید احمد کی وفات پر تعزیت کا اظہار اور غزہ میں پیدا شدہ صورتحال پر مشترکہ حکمت عملی اور ملکی سیاسی صورتحال پر غورو خوض تھا۔ غزہ پر دونوں جماعتوں کے درمیان ممکنہ تعاون پر اتفاق ہوا اور ایک دوسرے کی سرگرمیوں کا حصہ بننے کا اعلان بھی ہوا مگر اس ملاقات کی ٹائمنگ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ایک روز پہلے ہی جے یو آئی نے اپنی شوریٰ میں تحریک انصاف سے اتحاد کو مسترد کیا اور اگلے ہی روز مولانا فضل الرحمن کا منصورہ آ جانا ظاہر کرتا ہے کہ نئے سیاسی حالات میں صف بندیاں ترتیب پا رہی ہیں ۔ ماضی میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر سرگرم دونوں بڑی مذہبی جماعتیں کامیابیاں سمیٹ چکی ہیں۔ بعد ازاں اختلافات کے باعث اتحاد چل نہ سکا لیکن یہ تجربہ موجود ہے کہ مذہبی جماعتیں اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک پلیٹ پر جمع ہو جائیں اور کوئی تھپکی بھی ہو توانہیں نظرانداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ فی الحال تو مشترکہ نکتہ غزہ کی صورتحال ہے لیکن یہ سلسلہ چل پڑا تو قومی سیاست میں کسی اَپ سیٹ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔