ناشکری : نیکیوں کو برباد کرنے والا عمل

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


’’اگر تم شکر ادا کروگے تو ہم تم کو مزید عطا کریں گے‘‘:(سورہ ابراہیم:7) ’’ اللہ تعالیٰ اس بات سے(بھی) راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر یا پانی پی کر اس کا شکر ادا کرے‘‘(صحیح مسلم )

اللہ نے انسان کیلئے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں۔ اگر ہم سوچیں تو ہمارے جسم کا ایک ایک بال اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہے تو کبھی ادا نہیں کر سکتا۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ ’’اگر تم میری نعمتوں کا شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کر سکتے‘‘ (سورۃ ابراہیم :34)۔انسان وہ ہے جو اپنے مالک کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کر کے اس کا شکر بھی کرے اور جو لوگ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کا شکریہ ادا کرتے ہیں اللہ ان پر راضی ہو کر ان کو اور زیادہ عطا فرماتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اگر تم شکر ادا کروگے تو ہم تم کو مزید عطا کریں گے‘‘(سورۃ الابراہیم:7)۔ اس کے برعکس جو لوگ اس کا دیا ہوا بھی کھاتے ہیں اور اس کا شکر ادا نہیں کرتے، اللہ ان سے ناراض ہو جاتا ہے اور ان لوگوں پر اللہ کا شدید عذاب بھی ہے۔ ہم جب بھی اپنے رب کا رزق کھائیں، اس کی نعمتوں کا استعمال کریں تو دینے والے پروردگار کا شکریہ بھی ادا کرنا ہم سب پر واجب ہے۔

ہمیں اللہ کی نعمتوں کو سوچنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اگر ہم میں فکر پیدا ہو گئی تو ہم دینے والے محسن کا شکریہ بھی ادا کیا کریں گے اور دل سے نعمتوں کی قدر بھی کریں گے۔ ان کے دینے والی ذات سے بھی پیار بڑھ جائے گا۔ ہم زبان سے بھی الحمد اللہ کہیں گے، اعضاء سے بھی اس نعمتوں کا شکر اس کی عبادت کی زیادتی کر کے کریں گے اور یقیناً ہر مسلمان کو اللہ کی نعمت کی قدر بھی کرنی چاہیے۔ جب انسان کو اللہ نعمتیں عطا فرماتا ہے تو وہ اللہ کا احسان مان کر اس ذات کا فرمانبردار بننے کے بجائے اس کی دی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرتا ہے۔ نافرمان کو اللہ ڈھیل دیتا ہے اور اس کو مختلف اشاروں سے سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کفران نعمت مت کرے اور احسان مان کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا بن جائے۔ نافرمان بندہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میرا یہ عمل برا ہوتا تو مجھے سزا ملتی جو نہیں ملی اور اس طرح اس کی جرات بڑھ جاتی ہے۔ اس کی نافرمانی کی حد نہیں رہتی اور بلاؤں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اگر اس پر بھی انسان نہ سمجھے تواسے آخرت کی نعمت یعنی مغفرت اجرو ثواب سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔

انسان کو بغیر مانگے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں لیکن ان نعمتوں کے حصول کے باوجود انسانوں کی بڑی تعداد ظلم اور نا شکری کے راستے پر ہی چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الرحمن میں انسانوں اور جنات کو تکرار کے ساتھ مخاطب ہو کر ارشادفرمایا : ’’تم اپنے رب کی کون (کون) سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔

جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر الحمداللہ کہتا ہے تواس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، وہ جس دروازے سے چاہے اندر داخل ہو جائے۔ ایک مرتبہ الحمد اللہ کہنے سے تیس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، اس کی برکت زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو پر کر دیتی ہے۔ دوسری بار الحمد اللہ کہنے سے انوار ساتویں طبق آسمان سے لے کر ساتویں طبق زمین تک بھر جاتے ہیں۔ تیسری مرتبہ الحمداللہ کہنے سے اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ 

انسان بڑا نا شکرا ہے اس کی حرص اس کو نعمت کی قدر نہیں کرنے دیتی جو تقدیر میں نہیں اس کو نعمت سمجھتا ہے اور اس کیلئے تدبیر کرتا پھرتا ہے۔ ایسی تدابیر کا انجام ہلاکت ہے۔ نعمتیں ملنے سے قبل اور بعد قلب کی وہی حالت رہے جو پہلے تھی، اگر اللہ کو چھوڑ کر نعمتوں میں مشغول رہے اور اس کو بھول جائے تو وہ نعمت چھین لی جاتی ہے۔ اسی طرح حسد اور ناشکری بھی نعمتوں اور نیکیوں کو برباد کر دینے والی ہیں جب بھی اللہ کوئی خدمت اپنے بندوں کو عطا فرمائے تو اس کا شکر یہ ہے کہ زبان سے الحمدللہ کہے ، یہی اصل شکر ہے ۔

بندہ بہت سی چیزوں کو برا خیال کرتا ہے حالانکہ اس میں ہی اس کا فائد ہ ہوتا ہے۔ انسان کو شریعت کی پابندی کرنی چاہیے اور ہر لمحہ اللہ کا ذکر بھی کرتے رہنا چاہیے اس سے دنیا میں تو عزت و کامیابی عطا ہو گی ہی، آخرت میں بھی اس کا بہت اجر وثواب ملے گا۔ اللہ کا شکر یہ ہے کہ اہل دنیا سے اچھا برتاؤ رکھا جائے اور دل سے اللہ اللہ کیا جائے۔ اللہ کی نعمتوں کی دل سے قدر کر کے اس کی نعمتوں کو اس کی فرماں برداری میں صرف کرنا چاہیے ۔اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنانا چاہیے ۔جب بندہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرکے ان پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کا صلہ یہ ملتا ہے کہ نعمت کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا ’’ پیٹ بھر کے شکر ادا کرنے والے شاکر کا مقام روزہ رکھنے والے صابر کے برابر ہے ‘‘۔

یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ہی ہے جس سے انسان کے رزق اور اعمال اولاد میں برکت پڑتی ہے اور ناشکرے کو کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے ہاں یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی نعمت ملتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری محنت کا ثمر ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سے نعمت خداوندی سمجھ کر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔  ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اہل ایمان اور مومن کا شیوہ ہے۔ اللہ ہمیں اپنی سب نعمتیں ادا فرمائے اور ان نعمتوں کا شکر کرنے والا شاکر بندہ اورصابر مسلمان بنا دے۔ امین 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔