قرآن و حدیث کی روشنی میں مزدور کے حقوق

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


’’اپنے ہاتھ سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے‘‘(طبرانی) نبی کریمﷺ نے مزدور کو کام کی اجرت مقرر کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام کروانے سے منع کیا ہے

اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں جنہیں اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے،کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدور وںکا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی ان ہی کی کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔

 مزدوری ہر کوئی کرتا ہے، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنتی شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے (طبرانی)۔ یہ فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی۔ 

نبی کریم ﷺکا فرمان ہے کہ کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیںکھایا(صحیح بخاری)۔ آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی امت کیلئے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں (مسند احمد، ابو داؤد)۔

 آپ ﷺ نے فرمایا تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوں گا۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی سے کام کروایا۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی(صحیح بخاری)۔  ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے، تو آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ مزید ارشاد فرمایا:مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو (ابن ماجہ)۔

 جو کوئی غیر آباد زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (گویا اس کی محنت نے اس کو مالکانہ حقوق عطا کر دئیے) (احمد، ترمذی، ابو داؤد)۔ اجرت مزدور کا حق ہے، قرآن حکیم میں آتا ہے ’’جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کیلئے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے‘‘، معاہدہ ملازمت (چاہے معاہدات واضح ہوں یا مضمر) کے جدید تصورات کی پیش گوئی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے مزدور کو کام کی اجرت مقرر کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام کروانے سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔

محنت و مزدوری اللہ کے نبیوں کی سنت ہے۔ کم و بیش تمام انبیا کرام علیہ السلام نے مزدوری کو اپنا معاش بنایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے زمین کاشت کرکے غلہ حاصل کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت دائودعلیہ السلا زِرہ ساز تھے اور اپنے ہاتھ کے ہنر سے گزربسرکرتے۔ حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے10سال تک حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں۔ پیارے نبی اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے بھی بکریاں چرائیں۔  حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا، جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں‘‘۔ صحابہ کرام ؓکے استفسار پر نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’میں بھی مکے والوں کی بکریاں چند قیراط پر چرایا کرتا تھا‘‘ (صحیح بخاری)۔ 

حضورﷺ کی خدمت میں ایک صحابی ؓ حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ مزدوری کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں گٹھے پڑے ہوئے ہیں۔ آپﷺ نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فرمایا ’’یہ وہ ہاتھ ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بڑے پیارے ہیں‘‘۔

محنت و مزدوری کی عظمت و اہمیت کی دلیل یہ ہے کہ خود رب کائنات نے محنت کش، مزدور کو اپنا دوست قرار دے رہا ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بیشک اللہ روزی کمانے والے کو دوست رکھتا ہے‘‘ (طبرانی)۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’ایک ملازم (مرد/ عورت) کم از کم درمیانے درجہ کے عمدہ کھانے اور کپڑوں کا حقدار ہے‘‘ اور ’’کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے‘‘ اور یہ کہ مقرر کردہ اجرت ان (مزدوروں) کی بنیادی ضروریات کیلئے کافی ہو‘‘۔ ایک اور موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ 

تاریخی مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر  ؓنے فوجی جوانوں کیلئے اجرت مقرر فرمائی تھی اس اجرت پر دوران ملازمت مختلف معیارات جیسا کہ مدت ملازمت، بہترین کارکردگی اور علمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی جاتی۔ حضرتابو رافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں‘‘ (موطا امام مالک: 524، جامع ترمذی: 1318)

حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جس دن مال آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار ؓ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا اور میرے بعد عمار بن یاسر ؓ بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا گیا (مسند احمد: 22905)۔ حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺنے فرمایا ’’ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں۔

 حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے نبی کریم ﷺکا اِرشاد مبارک ہے ’’اللہ  نے جتنے اَنبیاء ؑبھیجے اُن سب نے بکر یوں کی نگہبانی کی ہے‘‘ (مشکوٰۃ)۔حضرت سعد انصاریؓ سے نبی رحمت ﷺ نے مصافحہ فرمایا تو ان کے پھٹے ہوئے ہاتھ دیکھ کر حضور نبی کریمﷺنے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا‘ میں سارا دن’’پھاوڑے‘‘ سے محنت مزدوری کر تاہوں۔ اس لئے ہاتھ پھٹ گئے ہیں تو آپﷺ نے اُس کے ہاتھ کو بوسہ د ے کر فرمایا ’’یہ وہ ہاتھ ہیں جنہیں اللہ اور اُس کے رسولِ ﷺ بھی محبوب رکھتے ہیں‘‘۔

 حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہُ فرماتا ہے ’’میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ کرکے عہد شکنی کرے، دوسرے وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام لے اوراس کی مزدوری نہ دے‘‘۔ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ اجرت دونوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے، اس میں کم سے کم اجرت کی تو وضاحت کر دی گئی ہے تاکہ کسی مزدور کی بنیادی ضروریات کما حقہ پوری ہو سکیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں جس طرح ’’انصاف پسند اور مناسب معاوضہ‘‘ کی بات کی گئی ہے اسی طرح، اسلام کا موقف ہے کہ ملازمین کو اتنی تنخواہ ملنی چاہئے کہ اس سے بتقاضائے بشری اس کی او راس کے خاندان کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں  مزدورں کے حقوق ادا کر نے کی توفیق نصیب فرمائے ،آمین

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭