نظام زکوٰۃ و عشر ُ کی حکمت

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


’’اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تم کو عطا کیا ہے‘‘(النور: 33) ’’اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس (پیداوار) میں سے (بھی )جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیداکی ہے‘‘ (البقرۃ:267)

اللہ تعالیٰ نے جیسے انسان کو جسم عطاء کیا اور اس سے متعلق کچھ احکام ذکر کیے، بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال دیا اس کے متعلق بھی احکام ذکر فرمائے ہیں۔ اسی کے دیئے  ہوئے جسم اور مال کو اسی کے حکم کے مطابق استعمال کیا جائے تو اللہ راضی ہوتے ہیں، دنیا میں برکتیں نازل فرماتے ہیں اور آخرت میں جنت عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے : ’’اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تم کو عطا کیا ہے‘‘(سورۃ النور: 33)۔دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے : ’’جو کچھ اللہ نے آپ کو دیا ہے اس کے ذریعہ آخرت کے گھر کو حاصل کرو‘‘ (سورۃ القصص:77)۔یہ سونا چاندی، کرنسی، دولت، مال مویشی، زمین، باغات، فصلیں،کھیت کھلیان وغیرہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں۔ ان کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا عبادت ہے اور اس مالی عبادت کا نام زکوٰۃ، صدقۃ الفطر، قربانی اور عُشر ہے۔

اسلام کے اقتصادی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام دولت کو ایک جگہ منجمد نہیں رہنے دیتا بلکہ اسے گردش میں رکھتا ہے تاکہ مال دار طبقہ مال کی کثرت و فراوانی کی وجہ سے غرور، تکبر اور ظلم پر نہ اتر آئے۔ اسی طرح غریب بھی احساس کمتری کا شکار ہو کر مایوسی اور جرائم کا مرتکب نہ ہو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ جہاں لوگوں کی معاشرتی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہاں اس کا روحانی فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے  کیونکہ مال کی بے جا محبت جب دل میں اترتی ہے تو انسان اپنے مقصد تخلیق سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے مال کے متعلق چند عبادات مقرر فرما دی ہیں تاکہ معاشرہ ظلم و ستم اور جرائم سے پاک رہے۔ اسلام کے اس اقتصادی نظام کا ایک جزو عُشر بھی ہے۔ جس طرح سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے ا سی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ لازم ہے، اسی کا نام ’’عُشر‘‘ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فصلیں اور باغات پکنے کو ہیں،گندم کی کٹائی کا عمل جاری ہے ، اس لیے عُشر کے متعلق کچھ احکام (وجوب، مقدار، شرائط، زکوٰۃ اور عُشر میں فرق، مصارف اور چند متفرق مسائل) ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں۔

عُشر کا وجوب

قرآن مجیدمیں ہے: ’’اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس (پیداوار) میں سے (بھی )جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیداکی ہے‘‘ (سورۃ البقرۃ: 267) ۔  دوسرے مقام پر ہے: ’’اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو اور )اللہ کی مقرر کردہ (حد سے آگے نہ بڑھو اس لیے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا‘‘(سورۃ الانعام: 141)۔ مذکورہ بالا مکمل آیت کریمہ میں فصل، باغات اور پھلوں کے جس حق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد عُشر ہے۔ 

دسویں اور بیسویں حصے کی تقسیم

عُشر کی ادائیگی میں پیداوار کے دسویں اور بیسویں حصہ کی تقسیم کا مدار پانی پر ہے، جس کی تفصیل حدیث پاک میں اس طرح سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کھیتی بارش کے پانی یا قدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بخود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے میں محنت نہ کرنی  پڑتی ہو اور نہ ہی پانی کا خرچ ادا کیا جاتا ہو) تو اس میں سے عُشر (دسواں حصہ) لیا جائے، اور جس کھیتی میں کنویں (ٹیوب ویل، رہٹ، یا وہ نہری پانی جس کا آبیانہ ادا کیا جائے) سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عُشر (بیسواں حصہ) لیا جائے‘‘(صحیح بخاری، باب العُشرفیمایسقی من ماء السمآء، حدیث نمبر 1483)۔حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہﷺ نے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں بحیثیت عامل اس پیداوار سے جو آسمان (کے پانی یعنی بارش) سے سیراب ہوئی اور جو زمین نہر کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے سیراب ہوئی (یعنی اسے خود سے پانی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی) تو اس میں دسواں حصہ بطور عُشر کے حاصل کروں اور جو زمین (کنوؤں کے) ڈولوں سے سیراب ہو اس میں بطور عُشر بیسواں حصہ وصول کروں‘‘ (سنن ابن ماجہِ باب صدقۃ الزروع والثمار، حدیث نمبر1818 )

وجوب عُشر کی شرائط

پہلی شرط مسلمان ہونا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عُشر اہل ایمان کیلٗے مقرر کردہ ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔ دوسری شرط زمین کا عُشری ہونا ہے، خراجی زمین پر عُشر نہیں ہوتا۔ خراجی زمین اسے کہتے ہیں جس کو مسلمانوں نے صلح یا جنگ کر کے حاصل کیا ہو۔ تیسری شرط زمین سے پیداوار کا ہونا ہے۔ لہٰذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبرگیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اْگی ہی نہیں تو ہر صورت میں عُشر ساقط ہو جائے گا، ادا نہیں کیا جائے گا۔

چوتھی شرط ایسی پیداوار ہے جسے لوگ کاشت کر کے نفع اٹھاتے ہوں۔ لہٰذا وہ گھاس جو خودبخود اُگ آئے یا بیکار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عُشر نہ ہو گا۔ اگر بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عُشر ہو گا، اگر خودبخود کوئی درخت اُگا ہے تو اس میں نہیں ہو گا۔

عُشر کے مصارف

(1) عُشر کے مصارف اور مستحق وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔ ایسا مسلمان جس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو عُشر کا مستحق ہے۔ (2)زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرح عُشرکی ادائیگی کیلئے بھی مستحق شخص کو مالک بنانا ضروری ہے۔ (3) مستحق افراد کو مالک بنائے بغیر عُشر کا مال یا رقم کسی بھی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں۔ (4)جس پر عُشر واجب ہے، اگر وہ خود بھی عُشر لینے والے مستحق افراد میں شامل ہو تو وہ اپنے عُشر کا اپنی ذات کا مالک نہیں بنا سکتا، کسی دوسرے مستحق شخص کو دینا ضروری ہے۔ (5)عُشر کی جگہ بطور صدقہ رقم یا غلہ اجناس وغیرہ دینے سے عُشر کی ادائیگی نہیں ہوتی خواہ عُشر کی مقدار سے زیادہ بھی صدقہ کر دیا جائے۔ (6) عُشر کے مصارف میں سب سے بہترین مصرف دینی مدارس و جامعات ہیں جہاں پر دین اسلام کو پڑھا، پڑھایا سیکھا اور سکھایا جاتا ہے، یہ واجب کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایسا صدقہ جاریہ بھی ہے جو مسلسل انسان کے نامہ اعمال میں جاری رہتا ہے۔

عُشر اور زکوٰۃ میں فرق

(1) زکوٰۃ کے واجب ہونے کیلئے مخصوص نصاب متعین ہے اس سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جبکہ عُشر کے واجب ہونے کیلئے نصاب مقرر نہیں پیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عُشر واجب ہوتا ہے۔ ہاں اگر کسی کی پیداوار پونے دو سیر سے بھی کم ہو تو اس قدر معمولی مقدار پر شریعت عُشر واجب نہیں کرتی۔ (2) زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے مال یا سامان وغیرہ پر سال کا گزرنا ضروری ہے جبکہ عُشر میں سال گزرنا ضروری نہیں۔ بلکہ اگر کسی زمین میں سال میں دو مرتبہ فصل ہوتی ہے یا کسی باغ وغیرہ میں سال میں دومرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پھل لگتا ہے تو ہر مرتبہ عُشر ادا کرنا ضروری ہے۔ (3) زکوٰۃ کی ادائیگی میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہے جبکہ عُشر کے واجب  ہونے میں یہ چیزیں شرط نہیں۔ (4) زکوٰۃ کے مال اور سامان وغیرہ کے ساتھ قرض کا تعلق ہوتا ہے یعنی اگر کسی پر قرض ہو تو اس قرض کو زکوٰۃ کے مال سے نکال کر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے جبکہ عُشر میں ایسا نہیں۔ (5) ایسی چیزیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تک وہ نصاب کے برابر باقی رہتی ہیں ان پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، جبکہ عُشر میں ایسا نہیں۔

متفرق مسائل 

(1)عُشرپیداوارکی جنس سے دینا ضروری نہیں بلکہ اس کی قیمت سے ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ (2)عُشر کیلئے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عُشر ادا کیا جائے۔ (3)عُشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور سبزیوں  میں بھی واجب ہے۔ (4)اگرکوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کے بعد دوبارہ اُگ آتی ہو تو جتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اس کا عُشر واجب ہو گا۔ (5)اگرفصل، پھل یاسبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی جائے یا توڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اس کا عُشر ادا کرتے جائیں۔ (6)جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عُشر واجب ہوتا ہے، جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی، پھل وغیرہ۔ جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بلکہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم کا بھوسہ، مکئی کا بھوسہ، چاول کا بھوسہ یا خودبخود اُگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عُشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کیلئے یا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارہ وغیرہ کیلئے تو ان میں بھی عُشر واجب ہو گا۔ (8) اگر گندم، مکئی، جَو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کیلئے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چونکہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اس لیے ان میں بھی عُشر واجب ہو گا۔ (9) کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کے ساتھ کوئی دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عُشر واجب ہے۔ (10) زمین میں خود رو درخت پیدا ہو جائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عُشر واجب نہ ہو گا۔ ہاں اگر ان کو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عُشر واجب ہو گا۔ (11)درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عُشر واجب نہیں۔ (12) عُشری زمین سے اگر شہد نکالا جائے تو اس پر بھی عُشر واجب ہے۔ (13) گھرکے صحن وغیرہ میں سبزی یا درخت لگائے جائیں تو ان سے حاصل ہونیوالی پیداوار پر عُشر نہیں۔ (14) اگرکسی نے اپنے رہائشی مکان کو مسمارکر کے اسے مستقل باغ سے تبدیل کر دیا تو اس میں آنے والے پھلوں پر عُشر واجب ہوگا۔(15) اگرعُشری زمین مزارعت پر دی جائے تو اس صورت میں زمیندار اور کاشتکار دونوں پر اپنے اپنے حصے کی پیداوار کا عُشر واجب ہے۔ (16) اگر عُشری زمین ٹھیکے پر دی گئی تو پیداوار کا عُشر کرائے دار پر ہو گا، زمین کے مالک پر نہیں۔ (17) اگر پیداوار کا مالک مقروض ہے تو بھی اس پر عُشر واجب ہو گا، قرض کو پیداوار سے نہیں نکالاجائے گا۔

یہ وہ دین کی باتیں ہیں جن کا علم اور اس پر عمل مسلمان کیلئے ضروری ہے بالخصوص وہ زمین دار لوگ جن کو اللہ کریم نے زمین جیسی نعمت سے نوازا ہے، زمین سے حاصل ہونے والے غلہ اناج وغیرہ میں اللہ کا حق ادا کرنا لازمی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان مسائل کو سیکھیں اور اپنے کسان بھائیوں کو بھی شریعت کے مسائل سمجھائیں۔ اللہ ہمیں دین پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین  

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5 برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔