سوء ادب:عقلمند گھوڑے

تحریر : ظفر اقبال


ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔

(2) ایک شخص کا گھوڑا بیمار پڑ گیا تو وہ اسے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے اس کا اچھی طرح سے معائنہ کیا اور سفوف کا ایک بڑا سا پڑا باندھ کراسے دے دیا اور کہا کہ یہ گھوڑے کو استعمال کروانا ہے ۔

’’لیکن یہ استعمال کیسے کروایا جائے گا ؟‘‘ تو ڈاکٹر نے کہا ’’اسے کسی نال میں ڈال کر گھوڑے کے منہ میں رکھنا اور زو ر سے پھونک مار دینا، سارا مواد اس کے اندر چلا جائے گا‘‘۔

کوئی نصف گھنٹے کے بعد وہ شخص دوبارہ آ گیا، اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ، منہ سرخ اور برا حال تھا تو ڈاکٹر نے پوچھا ’’کیا ہوا ؟‘‘تو وہ بولا ’’گھوڑے نے پہلے پھونک مار دی ‘‘۔

دامِ خیال 

یہ ایک بیوروکریٹ کی خود نوشت ہے جسے سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب اپا جی اور نصرت کے نام ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے علاوہ مختلف مشاہیر کی آرا مصنف اور اس کی کتاب کے حوالے سے درج ہیں جن میں عبداللہ حسین کے مطابق ’’دامِ خیال میں کہیں مرشدآباد ، بنگال کے درو بام سے ابھرتی ڈوبتی نوحہ گری ہے اور کہیں شیلا باغ ، بلوچستان کی ویرانیوں کا ہوش ربا سحر ہے ، کبھی منہ زور دریاں کی آبی در اندازیاں ہیں اور کہیں صحرائی وحشت میں ریگ موج کا کھیل تماشا ہے۔ طارق محمود کے ماہ و سال سول سروس سے وابسطہ رہے اس نے ان گنت تجربات اور حوادث کو بڑی یکسوئی سے سمیٹا، انہیں گہری معنویت اور تجسیم سے آشنا کیا ، وہ اب انہیں قاری کے سپرد کر کے بڑے سبھائو سے بڑی پتلی گلی سے نکل رہا ہے ، طارق محمود کی تحریر پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ اسے پڑھتے جائیں ۔

مستنصرحسین تارڈ کے بقول اس شخص کی حیرت انگیز قدرتِ بیان آپ کو مسخر کر لیتی ہے خاص طور پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور محرکات شاید پہلی بار کسی شخص نے یوں بیاں کیے ہیں ، میں ایک بار پھر اپنے مشرقی پاکستان کے لیے یوں اداس ہو گیا کہ طارق محمود کی تحریر میں مجھے ناریل کے پیڑوں اور گیلی برساتوں اور سندر بن کی مہک آنے لگی ۔ ڈاکٹر انوار احمد کے مطابق طارق محمود ایک انسان دوست اور حساس فنکار ہے جو استحصالی نظام کے ہر دا پے سے بخوبی باخبر ہے۔ وہ استحصال کا شکار ہونے والے لوگوں کیلئے عملی طور پر انقلاب آفریں اقدامات تو نہیں کر سکتا مگر اپنی تخلیقات کو اپنا اضطراب ضرور منتقل کر سکتا ہے۔ 

اوکاڑہ جب ضلع بنا تو طارق محمود اس کے پہلے ڈپٹی کمشنر تھے اور اسی دور میں انہوں نے رسائل و جرائد میں لکھنا بھی شروع کیا۔ جن کے ساتھ ذاتی رابطے بھی رہے۔ کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، خاص طور پر وہ اپنی سروس کے دوران جہاں جہاں تعینات رہے وہاں کے احوال انہوں نے کھل کر اور بڑے دل فریب انداز سے بیان کیے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ اکرام ملک کا تحریر کردہ ہے۔ شروع میں اظہارِ تشکر کے طور پر مصنف کی مختصر تحریر ہے، جس میں انہوں نے اپنے اس سفر کے بارے میں مختلف احوال بیان کیے ہیں اور اپنی صاحبزادی محسنہ سلمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جس نے بڑی لگن سے دامِ خیال کا سرورق ترتیب دیا اور آخر میں سنگِ میل پبلیکیشنز کے افضال احمد کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کو یقینی بنایا ۔

گیٹ اپ عمدہ، صفحات592اور قیمت 2500 روپے ہے ۔ 

آج کا مطلع

لہو کی سرسبز تیرگی ہے کہ رنگ اڑتے لباس کا ہے 

سمجھ میں آئے کہاں کہ منظر حواس کے آس پاس کا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا