فتح ملنے پر ادائیگی شکر کی شرعی تعلیمات

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


چند دن پہلے وطن عزیز ایک نازک اور حساس دور سے گزرا۔ سرحدی کشیدگی، جنگی بیانات، ایئر اسپیس کی نقل و حرکت اور قوم کا اجتماعی اضطراب، یہ سب کچھ اس بات کی علامت تھا کہ حالات معمول کے دائرے سے باہر نکل چکے ہیں۔ پاکستانی عوام، افواج اور قیادت نے نہ صرف حوصلہ و حکمت سے ان لمحات کا سامنا کیا بلکہ بالآخر دشمن کے مقابل ایک واضح اخلاقی، عسکری اور سفارتی برتری حاصل کی۔

اس کامیابی اور فتح پر جہاں عوام نے خوشی کا اظہار کیا، وہیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اس مرحلے کو محض فخریہ نعرے بازی یا وقتی جشن تک محدود نہ رکھیں بلکہ اللہ رب العزت کے شکر کے ساتھ اپنی دینی و قومی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں فتح کے نشے میں اللہ کو بھول جاتی ہیں، وہ جلد ہی پستی اور آزمائش کا شکار ہو جاتی ہیں۔

قرآن مجید اور شکر کی تعلیم

قرآن کریم کی روشنی میں شکر گزاری محض ایک اخلاقی رویہ نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے۔ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور مزید دوں گا‘‘۔ یہ آیت ایک اصولی حقیقت بیان کرتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں اضافے کا راستہ شکر گزاری سے جڑا ہے۔ فتح، عزت، امن اور استحکام جیسی نعمتیں تب ہی باقی رہ سکتی ہیں جب ان پر شکر بجا لایا جائے۔

سیرتِ نبوی: شکر کا عملی نمونہ

فتح کا سب سے مثالی اور کامل نمونہ ہمیں سیرتِ طیبہ میں ملتا ہے۔ فتح مکہ ایک ایسی عظیم کامیابی تھی جس میں نبی کریم ﷺ کو اپنے دشمنوں پر مکمل غلبہ حاصل ہوا۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے فخر و غرور کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ عاجزی اور انکساری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا سر مبارک تواضع کے سبب اتنا جھکا ہوا تھا کہ تقریباً پالان سے لگ رہا تھا۔ زبان پر ’’لا الہ الا اللہ وحدہ، نصر عبدہ، واعز جندہ، وھزم الاحزاب وحدہ‘‘ کی صدائیں تھیں۔اسی طرزِ عمل کو آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ فتح کو صرف عسکری یا سفارتی کامیابی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو اللہ کی مدد و نصرت کا مظہر سمجھتے ہوئے شکر ادا کیا جائے۔

شکر ادا کرنے کے شرعی طریقے

اسلام نے شکر ادا کرنے کے کئی عملی طریقے بیان کیے ہیں۔ فتح و نصرت کے موقع پر ان طریقوں پر عمل کرنا ایک فرد، ایک ادارے اور ایک قوم کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے۔

اللہ کی حمد و ثنا

فتح کے فوراً بعد ’’الحمد للہ‘‘ کہنا، اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور اجتماعی یا انفرادی طور پر تسبیح و تہلیل میں مشغول ہونا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا معمول تھا۔

نفل نماز

دو رکعت نفل نماز شکر کے طور پر ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے ذریعے بندہ عملاً اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ

شکر گزاری کی ایک اعلیٰ صورت یہ بھی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی کامیابی میں سے دوسروں کیلئے بھی حصہ نکالا جائے۔ جنگی فضا سے متاثرہ پاکستانی علاقوں کے افراد، شہداء کے ورثاء اور غریب طبقات کیلئے مالی امداد دینا عملی شکر ہے۔

عاجزی اور انکساری

فتح کے بعد سب سے زیادہ خطرہ فخر اور خود پسندی کا ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 

رسول اللہ ﷺ نے فتح کے ہر موقع پر تواضع اور انکساری کی تعلیم دی۔ اہلیان پاکستان کو بھی چاہیے کہ غرور کے بجائے تواضع اور عاجزی کو شعار بنائیں۔

توبہ و استغفار

قرآن و سنت کے مطابق نعمتیں صرف کامیابی پر منحصر نہیں، بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا بھی ضروری ہے۔

 فتح کے بعد اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرنا، اصلاحِ احوال کی کوشش کرنا اور اجتماعی طور پر دینی شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے۔

وطن عزیز کیلئے مستقبل کی حکمت عملی

یہ حقیقت ہے کہ فتح کے بعد کی حکمت عملی فتح سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جنگی ماحول کے بعد جذبات بلند ہوتے ہیں، قومی فخر عروج پر ہوتا ہے، لیکن یہ وہ وقت ہوتا ہے جب شیطان غفلت میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ میڈیا اپنی زبان میں احتیاط کرے اور ایسی رپورٹنگ سے گریز کرے جو تکبر اور خودستائی کو فروغ دے۔ عوام قومی اداروں پر اعتماد برقرار رکھیں اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں۔

دینی حلقے اور علماء قوم کو شکر اور اصلاح کی طرف راغب کریں، تاکہ فتح عارضی نہ ہو بلکہ مستقل استحکام کا پیش خیمہ بنے۔

اہلیان پاکستان کیلئے اس موقع پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے شکر گزار بندے بنیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اپنے کردار اور اخلاق کو بہتر بنائیں اور اللہ کی اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ فتح مل جانا اللہ کی رحمت ہے، لیکن اس کو باقی رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔

اگر ہم نے اس کامیابی کو اللہ کی طرف منسوب کیا، اس کے سامنے عاجزی اختیار کی اور اپنے اعمال و کردار کو درست کر لیا تو ان شاء اللہ یہ فتح ہماری تاریخ کا مستقل باب بنے گی۔اللہ تعالیٰ پاکستان کو امن، استحکام اور عزت و وقار عطا فرمائے۔ آمین 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا