فلسفہ قربانی بلا شبہ عمل کی بنیاد اخلاص پر ہے

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


’’ جس آدمی کے پاس گنجائش ہے اور اس کے باوجود قربانی نہیں کرتا، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے‘‘(ابن ماجہ) جانور لنگڑا ہو یا لنگڑا پن واضح ہو،بیمار جانور ہو، کھا پی نہیں سکتا، چل نہیں سکتا، شدید بیمار ہے ،اس کی قربانی جائز نہیں‘‘(ابو دائود)

قربانی قرب سے ہے اور قرب کا معنی ہے قریب ہونا۔ بندے کی سستی، لا پرواہی اور غفلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کمی آ جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے سے بندے کی رب سے دوریاں قربت میں بدل جاتی ہیں۔ اسی لیے اس کو قربانی کہا جاتا ہے۔

 اس عمل میں مالی عبادت شامل ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے ذرائع میں سے قربانی ایک بہت مختصر ذریعہ ہے۔ واضح رہے قربانی کرنے والے کیلئے بھی شرائط ہیں اور قربانی کی بھی شرائط ہیں۔ قربانی کرنے والے کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ جب ہم جانور خریدنے کے دوران اس کے عیوب تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے نقائص پر نظر رکھتے ہیں تو اس سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنے عیوب تلاش کریں۔ اپنی کمی کوتاہیوں پر غوروفکر کریں۔ جس طرح اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے صحیح سلامت، بے عیب جانور اللہ کے حضور پیش کرنا ہے۔ اسی طرح بندے کو خود بھی رب کے حضور پیش ہونا ہے۔

قربانی کی تاریخ

اِس کی تاریخ آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اُن کے دو بیٹوں،(ہابیل اور قابیل) نے اپنی اپنی نذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کی تو ایک کی نذر قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ بائبل میں صراحت ہے کہ ہابیل نے اِس موقع پر اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلونٹے بچوں کی قربانی پیش کی تھی۔ یہ طریقہ بعد میں بھی، ظاہر ہے کہ قائم رہا ہو گا۔ چنانچہ اِس کے آثار ہم کو تمام مذاہب میں ملتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد، البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اِس عبادت کو حاصل ہوئی ہے، وہ اِس سے پہلے، یقیناً حاصل نہیں تھی۔ اُنھیں جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ جانور کی قربانی دیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم نے اسمٰعیل کو ایک ذبح عظیم کے عوض چھڑا لیاہے۔اِس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب پشت بہ پشت لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اِس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے۔ حج و عمرہ کے موقع پر اور عیدالاضحی کے دن یہی قربانی ہے جو ہم ایک نفل عبادت کے طور پر پورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔

نیت خالص ہو

بلا شبہ عمل کی بنیاد اخلاص پر ہے۔ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، ظاہری ہو یا خفی، ہر طرح کے عمل کیلئے نیت خالص ہونی چاہیے۔ دین کا دارومدار بھی نیت پر ہے۔ اسی طرح قربانی کیلئے جس مال سے ہم جانور خریدتے ہیں وہ مال پاک ہونا چاہیے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ رب العزت نے انبیائے کرامؑ کو حکم دیا کہ ’’پاکیزہ چیزیں کھائیں اور نیک عمل کریں‘‘ (سورۃ المومنون: 51)۔

پاکیزہ مال

 نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ اللہ خود پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)   قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ ’’اللہ کی راہ میں گندا، ناپاک، حرام مال خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو۔ اگر کوئی ناپاک، گندا یا ناکارہ مال تم کو دے تو تم کھلی آنکھوں کے ساتھ کبھی نہیں لو گے‘‘ (سورۃ البقرہ: 267)۔

عقیدے کا درست ہونا

 اسی طرح عقیدے کا درست ہونا بھی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ عقیدے کا شرک، بدعات و خرافات سے پاک ہونا اوّلین شرط ہے ۔ قربانی کے تناظر میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ فرض ہے یا سنت؟ راجح بات یہ ہے کہ جو شخص صاحب استطاعت ہو اس پر قربانی لازم ہے۔ سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ جس آدمی کے پاس گنجائش ہے اور اس کے باوجود قربانی نہیں کرتا، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے‘‘۔ 

قربانی و عتیرہ

عرفہ کے میدان میں اللہ کے نبی کریم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’ لوگو! ہر مسلمان خاندان پر ہر سال قربانی بھی ہے اور عتیرہ بھی‘‘ (ابو دائود)۔ عتیرہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے رجب کے پہلے10 دنوں میں ذبح کیا جاتا تھا۔ اسے رجبیہ بھی کہا جاتا تھا۔ قبل از اسلام لوگ رجب میں جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابودائود بیان کرتے ہیں کہ بعد میں عتیرہ اللہ کے نبی پاک ﷺ نے منسوخ قرار دے دیا۔ البتہ قربانی کو قیامت تک کیلئے باقی رکھا۔ 

نماز سے قبل قربانی کرنا

اسی طرح ایک صحابیؓ نے بکرا قربانی کیلئے رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے عید کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی وہ ذبح کردیا اور گوشت تقسیم کردیا۔ اللہ کے نبی ﷺ کو معلوم ہوا تو نماز عید پڑھانے کے بعد خطبے میں فرمایا ’’جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر لیا، تو وہ عام گوشت ہے اور جو عید کی نماز پڑھنے کے بعد قربانی کرے گا، وہ انشاء اللہ مسلمانوں کے طریقے کو اور قربانی کو پالے گا‘‘۔ صحابی ؓنے کھڑے ہوکر کہا ، اے اللہ کے رسولﷺ مجھے علم نہیں تھا اور میں جانور ذبح کرچکا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرو ‘‘(صحیح بخاری)۔ اگر قربانی اختیاری معاملہ ہوتا تو رسول اللہﷺ اُن صحابی کی لاعلمی پر ان کو دوسرا جانور ذبح کرنے کا حکم نہ دیتے۔

قربت الٰہی کا ذریعہ

 دراصل قربانی قربت الٰہی کا ذریعہ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت بھی۔دنیا کے تمام مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔ اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں بلکہ جان کی نذر ہے جو اُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔

تقویٰ

جن کو اللہ نے مال دیا ہے، ان کے ذمے قربانی کرنا بھی ایک حق ہے۔ اس میں لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے۔ ہر سال عید الاضحی قریب آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک گروہ یہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ قربانی سے کیا ملے گا؟۔ اس مال سے کسی کی مدد کرلیں۔ جانور کاٹنے سے خون بہے گا، تعفن اٹھے گا، بیماریاں پھیلیں گی، گوشت بھی خراب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا پیسہ غریب کو دے دو۔ یہ لوگ قربانی پر تو اعتراض کرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اتنی مہنگی گھڑی یا موبائل استعمال کیوں کر رہے ہو۔ بچوں کی شادی پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیوں کر رہے ہو۔ ایک ایک گھر میں چار چار پانچ پانچ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں، کبھی کسی نے اس فضول خرچی پر غریبوں کو یاد کیا؟ مگر قربانی یا حج ان کو فضول خرچی دکھائی دیتا ہے۔ اللہ ایسے افکار باطلہ سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ یاد رہے، اللہ کو ہمارے قربان کیے گئے جانوروں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی ان کا خون، اللہ تعالیٰ ہمارے تقویٰ کو دیکھتا ہے۔ قربانی کا گوشت ہم خود کھالیتے ہیں، رشتے داروں کو بھی دیتے ہیں اور غربا و مساکین میں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ بہت سارے گھرانے ایسے ہیں جنہیں سالہا سال گوشت میسر نہیں ہوتا، عید الاضحی کی برکت سے ان کیلئے بھی گوشت کا انتظام ہوجاتا ہے۔

کن جانوروں کی قربانی درست نہیں

جہاں تک قربانی کے جانور میں عیوب یا نقائص کی بات ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ 4 قسم کے جانور یا جس جانور میں4 عیب ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ (1 ) جانور لنگڑا ہو یا لنگڑا پن واضح ہو۔ (2)بیمار جانور ہو، کھا پی نہیں سکتا، چل نہیں سکتا، شدید بیمار ہے اس کی قربانی جائز نہیں‘‘(ابو دائود)۔ البتہ معمولی مرض ہو تو جائز ہے۔ جیسا کہ جانور کو پیچس لگ جاتے ہیں۔ نمونیا ہو جاتا ہے اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ معمولی عیب ہے اس میں قربانی درست ہے۔ اسی طرح کانا یا بھینگا جانور، جس کا کانا یا بھینگا پن بالکل واضح ہو تو ایسے جانور کی قربانی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ چوتھے نمبر پر بوڑھا جانور ہے، اس کی قربانی بھی درست نہیں۔ اسی طرح ٹوٹے ہوئے سینگ یا کٹے ہوئے کان والے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے۔ البتہ معمولی سینگ ٹوٹا ہو یا کان میں معمولی کٹ لگا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ عیب واضح ہونا ضروری ہے۔ مسنہ جانور کی قربانی کرنی چاہیے البتہ دنبہ، بھیڑیا مینڈھے کیلئے مسنہ کی شرط نہیں، ان کیلئے جوان ہونا شرط ہے۔

قربانی کا مقصد

اِس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام و اخبات کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔ اِس موقع پر تکبیر وتہلیل کے الفاظ اِسی مقصد سے ادا کیے جاتے ہیں۔ اپنا اور اپنے جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے اور ’بِسْمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہہ کر ہم اپنے جانوروں کوقیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔

ایام تشریق

اِس کا قانون یہ ہے: قربانی انعام کی قسم کے تمام چوپایوں کی ہو سکتی ہے۔ اِس کا جانور بے عیب اور اچھی عمر کا ہونا چاہیے۔ قربانی کا وقت یوم النحر10ذو الحجہ کو عید الاضحی کی نماز سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اِس کے ایام وہی ہیں جو مزدلفہ سے واپسی کے بعد منیٰ میں قیام کیلئے مقرر کیے گئے ہیں۔ اصطلاح میں اِنھیں ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ قربانی کے علاوہ اِن ایام میں یہ سنت بھی قائم کی گئی ہے کہ ہر نماز کی جماعت کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔ نمازوں کے بعد تکبیر کا یہ حکم مطلق ہے۔ اِس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں کیے گئے۔ قربانی کا گوشت لوگ خود بھی بغیر کسی تردد کے کھا سکتے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا