عظیم شاہسوار (پہلی قسط)

تحریر : اشفاق احمد خاں


جنگ کا میدان سجا ہوا تھا۔ ایک طرف سپاہ کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی جب کہ اس کے مقابلے میں محض بیس ہزار کی قلیل تعداد جس کا سازو سامان مختصر تھا، اور بظاہر وہ اتنی بڑی سپاہ کے سامنے بے بس اور لاچار دکھائی دے رہی تھی۔ یہ مختصر سپاہ دشمن کے گھیرے میں تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ اپنا دفاع بھی نہ کر پائیں لیکن حقیقت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔

تلواروں سے تلواریں ٹکرا رہی تھیں، فضا ان کی اڑتی ہوئی چنگاریوں سے روشن تھی۔ گھوڑوں کے سم زمین کے سینے پر پوری قوت سے ٹکرا رہے تھے۔ فضا گرد و غبار سے اَٹی ہوئی تھی، زمین اور آسمان گرد کی لپیٹ میں تھے۔

لاشیں کٹ کٹ کر زمین کی خاک ہو رہی تھیں اور زمین کا سینہ لہو رنگ تھا۔ معرکہ تھا کہ تھمنے میں نہیں آتا تھا۔ کبھی بھاری سپاہ تعداد کے نشے کے غرور میں غلبہ پاتی نظر آتی تو کبھی قلیل سپاہ جذبوں کی سرشاری میں ڈوبی، کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر آتی۔ انہی نشیب و فراز سے گزرتے گزرتے قلیل سپاہ پر دشمن کا زور بڑھتا گیا، وہ مختصر جمعیت سمٹتی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ شکست کی سیاہی ان کی پیشانیوں کی چمک پر غالب آ جائے گی۔ لیکن غالب و کار ساز قوت کوئی اور ہے۔

طول پکڑتی جنگ سے کمزور پڑتی سپاہ کا انجام نظر آنے لگا تھا۔ قریب تھا کہ جنگ کا فیصلہ ہو جاتا، عین اسی وقت اس قلیل سپاہ کے ایک شاہسوار نے جنگ کے جوش کے ساتھ ساتھ ہوش سے کام لیا۔ اس نے ان اسباب پر غور کیا جو ان کو ناکام کئے دے رہے تھے۔ بے شک دشمن تعداد میں زیادہ تھے، لیکن ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔

 اس نے اب تک جتنے معرکوں میں حصہ لیا تھا ان میں ہمیشہ یہی صورتحال رہی تھی۔ دشمن کثیر ہوتے تھے اور وہ تعداد میں قلیل۔ لیکن ان معرکوں میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی کیونکہ جذبوں کی قوت اور حق کیلئے مرمٹنے کی آرزو ان کو کبھی میدان میں پیچھے نہیں ہٹنے دیتی تھی۔ پھر آج کیا وجہ ہے کہ کامیابی کا سورج ان کی زندگیوں میں، خون اور جذبوں کی بھینٹ لے کر بھی طلوع نہیں ہو رہا۔

اس شاہسوار کو زیادہ تدبر اور غور و فکر کی ضرورت نہ پڑی۔ معاملہ بہت جلد اس کی سمجھ میں آ گیا۔ دشمن فوج کا سالار جر جیر اپنی فوج کی کامیابی کی اصل وجہ تھا اسی کی وجہ سے اس کی فوج بے تکان اور مسلسل لڑے جا رہی تھی۔ اس شاہسوار نے سوچا کہ جب تک دشمن فوج کی اصل طاقت، اس کے سالار پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ 

اپنی اس سوچ کو دل میں لئے اپنے سالار ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جا پہنچا۔ ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ میدان جنگ کی بجائے اس شاہسوار کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوئے۔ اس شاہسوار نے ان کی حیرت دور کرتے ہوئے کہا: ’’سالار محترم، ہماری تمام کوششوں، جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود دشمن غلبہ پانے کو ہے‘‘۔

’’ حوصلہ ہار گئے کیا؟‘‘ ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ مسکرائے۔ ’’نہیں میرے محترم سالار، حوصلہ ہارنے سے پہلے زندگی کی بازی ہار دوں گا‘‘۔ اس شاہسوار نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’ میں نے محض اس وجہ پر غور کیا ہے جس کی بنا پر کامیابی ہم سے روٹھی ہوئی ہے‘‘۔ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے سوالیہ نظروں سے شاہسوار کو دیکھا۔

‘’’دشمن فوج کا سالار جر جیر ہماری کامیابی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘ شاہسوار بولا: ’’ اس کی وجہ سے فوج بڑی بے جگری کے ساتھ لڑ رہی ہے‘‘۔

’’تو آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے؟‘‘ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے بات کی تہہ تک پہنچتے ہوئے پوچھا۔

’’جر جیر کا خاتمہ‘‘! شاہسوار نے حل پیش کیا’’ اس کی موت کے ساتھ مخالف فوج کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے‘‘۔

 ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی طرف دیکھا تو سبھی نے اس شاہسوار کی تعریف کی اور اس کی تجویز کا خیر مقدم کیا۔

 تب ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے اسے جر جیر تک پہنچنے کی تدبیر اختیار کرنے کی اجازت دے دی۔(جاری)

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔