قربانی کی عظمت و اہمیت

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


قربانی کا لفظ بنیادی طور پر 3 الفاظ کا مجموعہ ہے، ق، ر، ب جو کہ عربی میں قَرُبَ بنتا ہے۔ اردو میں یہ لفظ قریب ہونے، قربت حاصل کرنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً نماز قربِ خداوندی کا ذریعہ ہے ۔قربانی کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے خدا کی خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کیا جائے اور جب کوئی خدا کے قریب ہوتا ہے تو خدا اس کے قریب ہوتا ہے اور خدا جس کے قریب ہوجائے پوری کائنات اس کی ہوجاتی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ کی سیرت سے یہی سبق ملتا ہے کہ جب انہوں نے اﷲ کیلئے ہر طرح کی قربانی دی تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں انسانیت کا امام بنا دیا(البقرہ:124)۔

قربانی کا حکم اگرچہ ہر امت میں رہا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اﷲ کا نام لیں جو اﷲ تعالیٰ نے انہیں عطا کیے ہیں‘‘ (الحج: 34)، لیکن سیدنا ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم قربانی کی وجہ سے یہ سنت ابراہیمی قرار پائی۔ سیدنا حضرت ابراہیم ؑ اس سے پہلے بھی خدا کی راہ میں مختلف قربانیاں دے چکے تھے اور ہر قربانی دراصل خدا کے حکم کے آگے سرجھکا دینے کا ایک عمل تھا ۔ یہی سبق ہمیں قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یاد دلایا جاتا ہے کہ یہ محض ایک جانور کی قربانی نہیں ہے بلکہ اپنی خواہشات کو خدا کی مرضی کے آگے قربان کردینے کا نام ہے۔

قربانی کے مقاصد

اخلاص:قربانی کا ایک سبق یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہم اپنے اندر اخلاص کا جذبہ پیدا کریں۔ جو بھی نیکی کا کام کریں وہ صرف اور صرف خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کیلئے ہو۔ اقرآنِ مجید میں فرمایا گیا : ’’کہہ دیجیے اے نبی ﷺ بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اﷲ رب العالمین کیلئے ہے‘‘(الانعام :162)۔ جب جانور کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کے نام پر ہوتی ہے اگر کسی اور کے نام پر جانور ذبح کیا گیا تو وہ قربانی قبول نہیں ہوگی۔ اس لیے کوئی بھی نیکی کا کام کرنے لیے اسلام میں اصل اہمیت نیت کی ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر ایک کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ (بخاری: 1)

تقویٰ:ا قربانی کا ایک مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں۔’’ خدا کو ہر گز جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘(الحج:37)۔ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جس طرح بتوں کے نام پر کی جانے والی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جا کر چڑھاتے تھے ، اسی طرح اﷲ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ (ابن کثیر، /۵ ۴۳۱)ان کے نزدیک قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اﷲ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔  اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے: ’’بیشک اﷲ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے‘‘ (صحیح مسلم:6708) ۔اس لیے اگر قربانی کرتے وقت دلوں کو صاف نہ کیا گیا اور اس میں موجود خواہشات کو بھی خدا کی خواہش پر قربان نہ کیا گیا تو پھر محض وہ ایک جانور کو ذبح کرنا رہ جائے گا خدا کے حضور اسے قربانی کا درجہ حاصل نہیں ہوگا۔ 

رب کی کبریائی:قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہماری زبانوں پر رب کی کبریائی کا ترانہ جاری ہوجائے اور اس کو ہم اپنی عادت بنا لیں۔ اس لیے خود اﷲ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی : ’’اﷲ نے ان (جانوروں) کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کردیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی کبریائی بیان کرو اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں انہیں خوشخبری سنا دو‘‘ (الحج:37)۔

بے عیب زندگی:قربانی کیلئے جو جانور خریدا جاتا ہے اس کیلئے چند مخصوص شرائط ہیں ، مثلا: جانور لنگڑا، لولا، کانا نہ ہو۔ اسی طرح دیگر ظاہری اعضا میں بھی کوئی خامی نہیں ہونی چاہیے ۔ کسی عیب دار جانور کی قربانی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ اس سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہماری زندگیاں بھی بے عیب ہونی چاہئیں ۔ 

سنتوں پر عمل کا جذبہ پیدا ہو: قربانی کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے دل میں سنت پر عمل کا جذبہ پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی سنت کے مطابق گزارے۔ قربانی کے جانورکو سنت کے مطابق جانور کو ذبح کیا جانا ضروری ہے وگرنہ وہ قربانی قبول نہیں ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے نمازِ عید سے پہلے جانور ذبح کردیا رسول اﷲ ﷺ نے انہیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا (ابن حبان،235/13) کیوں کہ انہوں نے سنت طریقے پر قربانی نہیں کی تھی۔ 

امداد باہمی کا جذبہ:قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کے دل میں دوسروں کی مدد بالخصوص معاشرے کے کمزور طبقات کا خیال رکھنے اور ان کی مدد کا جذبہ پیدا ہو۔ قرآنِ مجید میں جہاں قربانی کا ذکر آیا ہے وہیں ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ اس جانور کا گوشت خود بھی کھاؤ اور فقیر،تنگدست اور قناعت پسند کو بھی کھلاؤ(الحج)۔ 

قربانی کا مقصد خدا کی خوشنودی اور 

اس کا قرب حاصل کرنا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فاطمہ حسن پیچ درپیچ اظہار کی شاعرہ

کسی سے پوچھا گیاکہ کہ فاطمہ حسن کی شاعری پر آ پ کا کیا تاثر ہے تو اس نے کہا: کپاس کا ایک پھول جس میں آگ روشن ہے

سوء ادب:دیوانِ غالب مرمت شدہ

قارئین کو یاد ہو گا کہ یہ سلسلہ میں نے کوئی آٹھ دس سال پہلے برادرم مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں شروع کیا تھا جس کی متعدد اقساط شائع ہوئیں اور ان پر مثبت اور منفی تبصرے بھی آئے ،تاہم بوجوہ یہ سلسلہ بند کرنا پڑا۔

قومی کھیل،بحالی کی نئی امیدیں

گرین شرٹس نے ایف آئی ایچ ہاکی نیشن کپ کافائنل کھیل کر دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان میں ابھی ہاکی ختم نہیں ہوئی۔ اہم بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں وکٹری سٹینڈ پر پہنچنا قومی کھیل کی بحالی کے لئے امید کی ایک نئی کرن ہے۔

44پاکستانی کرکٹرزکاٹیسٹ کیریئر1 میچ تک محدود

صرف ایک چانس کے بعد خواب ٹوٹ جانا بہت برا ،قسمت کی دیوی پھر کبھی مہربان نہ ہوسکی

عظیم شاہسوار (تیسری قسط)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنا بچپن زیادہ تر رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں گزارا۔ نبی کریم ﷺ کی محبت، شفقت اور پیار ان کو بہت زیادہ نصیب ہوا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں۔

کامیاب زندگی

نازش ایک غریب گھرانے کی ایک قابل اور سمجھدار لڑکی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی، لیکن اس نے کبھی چھوٹی چھوٹی خواہشات پر اپنے والدین کو تنگ نہ کیا۔