عیدالاضحی:جانوروں کی قربانی سے دل کی قربانی تک

اسلامی کیلنڈر کا بارہواں اور آخری مہینہ ذوالحجہ ہے، جسے قرآن و سنت میں بے پناہ فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حج، قربانی، یوم عرفہ اور عشرۂ ذوالحجہ جیسی عظیم عبادات شامل ہیں جو کسی اور مہینے میں جمع نہیں ہوتیں۔
عشرۂ ذوالحجہ کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ذوالحجہ کے دس دنوں میں کیے گئے نیک اعمال اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں‘‘ (بخاری)۔یہاں تک کہ ان دنوں میں عبادت کا اجر جہاد سے بھی بڑھ کر بتایا گیا، جو اسلام کا اعلیٰ ترین عمل ہے۔اس عشرہ میں نفل عبادات جیسے تسبیح، تلاوت، صدقہ، روزہ رکھنا (خصوصاً 9 ذوالحجہ: یوم عرفہ)، کثرت سے ’’سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر‘‘ کہنا، تلاوتِ قرآن، صدقہ و خیرات، یہ سب اعمال بہت زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔
یہی وہ ایام ہیں جن میں دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں اور حج کی عظیم عبادت ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اجتماع ہے جوعالمگیر وحدت کی علامت ہے۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے فرق کو مٹا کر امتِ مسلمہ کی یگانگت ظاہر کرتا ہے۔ذوالحجہ ہی کے ایام میں عیدالاضحی اور قربانی کی سنت ادا کی جاتی ہے، جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت اور تسلیم و رضا کی یادگار ہے۔
اسی بابرکت مہینہ میں قربانی کی عبادت سرانجام دی جاتی ہے۔ قربانی محض رسم نہیں، بلکہ شعورِ بندگی ہے۔ قربانی کا عمل حضرت ابراہیمؑ کی اس اطاعت و تسلیم کا مظہر ہے، جب انہوں نے خواب میں بیٹے کو اللہ کے حکم سے ذبح کرنے کا پیغام پایا اور بلا چوں چرا اسے ماننے کیلئے تیار ہو گئے۔’’جب دونوں نے (خود کو) اللہ کے سپرد کر دیا اور (ابراہیمؑ نے) بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا‘‘ (الصافات: 103)۔
اللہ تعالیٰ نے اس جذبۂ اطاعت پر جان کی قربانی کی جگہ جانور کی قربانی کو سنت بنا دیا۔قربانی کرنے کے اہم مقصد کو واضح کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے، نہ کہ گوشت اور خون۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ کو نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (الحج: 37)۔
یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ قربانی کا مقصد صرف رسم ادا کرنا نہیں بلکہ اللہ کی رضا کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہے۔قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ہر مسلمان کو اپنے دل میں یہ بات تازہ کرنی چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عہد کر رہا ہے۔ وہ محض جانور نہیں، بلکہ اپنی خودی، تکبر، حسد اور انا کو ذبح کر رہا ہے۔ وہ یہ مان رہا ہے کہ اللہ کے حکم کے سامنے کوئی چیز بڑی نہیں۔ نیز قربانی کو دکھاوا نہ بنایا جائے۔ بعض لوگ قربانی کو مہنگے جانور دکھانے کا ذریعہ، فخریہ ویڈیوز یا سوشل میڈیا پر نمائش اور گوشت کی تقسیم میں تفریق اور انا کا مظاہرہ بنا دیتے ہیں، جو قربانی کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ایسے اور ان جیسے دیگر غیرمناسب کاموں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
اسلام صرف ظاہری عبادات پر زور نہیں دیتا، بلکہ باطن کی اصلاح، نفس کی تربیت اور دل کے جھکاؤ کو بھی اصل نیکی قرار دیتا ہے۔ ذوالحجہ کی قربانی میں جہاں جانور کا خون بہایا جاتا ہے، وہاں اسلام چاہتا ہے کہ انسان اپنی باطنی خواہشات کو بھی ذبح کرے، کیونکہ اصل امتحان تو نفس کے خلاف جدوجہد ہے۔نفس انسان کو غصہ، تکبر، حسد، کینہ، شہوت، سستی، دنیا پرستی، غیبت، جھوٹ اور خود پسندی جیسی اخلاقی برائیوں میں ڈالتا ہے، اور ان سے نکلنے کی سب سے پہلی شرط اپنے نفس کو اللہ کے سامنے جھکا دینا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے اللہ کی اطاعت کیلئے لڑے‘‘ (ترمذی)۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ نفس کی مخالفت سب سے اعلیٰ جہاد ہے۔
ذوالحجہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جیسے ابراہیمؑ نے بیٹے کو اللہ کے حکم پر قربان کیا، اسماعیلؑ نے اپنی جان دے کر اطاعت کا مظاہرہ کیا، تو آج ہمیں بھی اپنے اندر موجود نفس کی ناجائز خواہشات و جذبات کو ذبح کرنا ہوگا۔یہ قربانی والد کی اولاد سے محبت، بیٹے کی جان کی قدر اور خاندانی جذبات کی آزمائش تھی لیکن اللہ کی محبت نے سب پر غالب آ کر اس عمل کو قربانی کی اعلیٰ ترین علامت بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے اخلاص کو قبول کیا اور اسماعیلؑ کی جگہ ایک بڑا جانور ذبح کرنے کیلئے بھیج دیا: ’’اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس (اسماعیلؑ) کا فدیہ دے دیا‘‘ (الصافات: 107)۔
یہ قربانی ہر سال عیدالاضحی کے دن سنت کے طور پر دہرائی جاتی ہے، تاکہ ہمیں یاد رہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے تقویٰ، اخلاص اور اللہ کے حکم کی اطاعت ہے۔ قربانی صرف ایک انفرادی عبادت نہیں، بلکہ اس کے ذریعے اسلام ہمیں معاشرے کے کمزور، محتاج اور پسے ہوئے طبقے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنے مال، گوشت اور خوشی کو دوسروں کے ساتھ بانٹ کر ایک ہمدرد، مہربان اور برابری پر مبنی معاشرہ تشکیل دیں۔ گوشت کی تقسیم محبت و مساوات کا مظہرہے۔ گوشت کی تقسیم کو تین حصوں میں بانٹنا (خود کے لیے، رشتہ داروں کیلئے اور فقراء کیلئے) اسلام کی معاشرتی توازن کی تعلیم ہے۔
قربانی کے موقع پر رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غرباء کو تحائف دینا،دعوتیں کرنا، مل بیٹھنا، تنہائی اور غربت کے مارے لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا۔ یہ سب اسلامی اخوت کا عملی نمونہ ہے۔ قربانی کے ذریعے ہم دلوں کو جوڑتے اور فاصلے کم کرتے ہیں۔قربانی صرف ایک رسمی یا تہوارانہ عبادت نہیں بلکہ تربیتِ نفس اور محاسبۂ ذات کا ایک اہم موقع ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم جانور کی قربانی سے پہلے اپنے نفس، نیت، اخلاق اور رویوں کو پرکھیں کہ کیا ہم واقعی اللہ کی رضا کیلئے زندگی گزار رہے ہیں یا صرف رسوم ادا کر رہے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا: ’’اللہ کو نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ تمہاری طرف سے تقویٰ (نیت کی پاکیزگی) پہنچتی ہے‘‘ (الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ان سوالات کے مثبت جوابات تلاش کریں کہ کیا ہم قربانی اللہ کی خوشنودی کیلئے کر رہے ہیں یا ہم اس میں ریا، رسم یا مقابلہ شامل کر چکے ہیں؟ کیا ہمارا دل اللہ کے سامنے جھکا ہوا ہے یا نہیں؟
قربانی سے پہلے اور بعد ہمیں اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نماز، روزہ، صدقہ، حسنِ اخلاق جیسے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم غیبت، جھوٹ، چغلی، حسد، بغض جیسے گناہوں سے بچتے ہیں؟ کیا ہم حقوق العباد کو اہمیت دیتے ہیں یا صرف حقوق اللہ پر زور دیتے ہیں؟ قربانی کا اصل سبق یہی ہے کہ نفس کی من مانی کو اللہ کی رضا کے تابع کیا جائے۔
اسلام ہمیں موسمی یا وقتی دینداری کی نہیں، بلکہ ہمہ وقت عبدیت اور قربانی کی دعوت دیتا ہے۔ ذوالحجہ کے دن محض چند مخصوص اعمال کی ادائیگی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ہمیں یاد دہانی کراتے ہیں کہ سچی بندگی مستقل مزاجی، قربانی، صبر اور وفاداری کا نام ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور رسول اللہ ﷺ کی سنتوں سے ہمیں ملتا ہے۔
قربانی ایک دائمی طرزِ فکر ہے۔ قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات، مفادات، وقت، مال، انا اور تعلقات کو اللہ کے حکم کے تابع کر دیں۔ یہ جذبہ صرف ذوالحجہ کے تین دنوں تک محدود نہ رہے۔ ہر فیصلہ، ہر قدم اور ہر عمل میں اللہ کی رضا اور خیر خلق کو مقدم رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا، سب اللہ ہی کے لیے ہے‘‘۔( الانعام: 162)
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں قربانی کا اطلاق کریں۔ ذوالحجہ کے بعد بھی قربانی کے اصول ہماری زندگی میں عملی صورت اختیار کریں، مثلاً دوسروں کی مدد، علم دین کے حصول اور عبادات کے لیے وقت کی قربانی دیں۔ صدقہ، خیرات، رفاہِ عام کے کام کرکے مال کی قربانی دیں۔ تعلقات میں معافی، درگزر اور انکساری اختیار کر کیانا کی قربانی دیں۔ راتوں کو اٹھ کر دعا، قرآن اور ذکر میں وقت خرچ کریں۔ اپنی مرضی کے بجائے اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قربانی کو تربیت کا ذریعہ بنائیں۔ قربانی محض گوشت کھانے یا جانور خریدنے کی رسم نہ بن جائے۔ اس کے ذریعے اپنے بچوں کو ایثار اور ہمدردی کا سبق دیں۔ دلوں کو نرم اور اللہ کی یاد سے لبریز کریں۔ سادگی، عاجزی اور اللہ پر بھروسے کو اپنا شعار بنائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ قربانی اگر زندگی کے ہر لمحے میں شامل ہو جائے تو انسان اللہ کا سچا بندہ، معاشرہ عدل و احسان کا گہوارہ، اور امت قربانی و اخلاص کا مظہر بن سکتی ہے۔ ذوالحجہ ہمیں سکھاتا ہے کہ قربانی وقتی نہیں بلکہ ایک مسلسل طرزِ حیات ہے۔
ذوالحجہ کا مہینہ ہمیں قربانی کا عظیم درس دیتا ہے، جو صرف جانور کے ذبح تک محدود نہیں بلکہ یہ نفس کی قربانی، دل کی پاکیزگی اور تعلقِ الٰہی کی گہرائی بھی ہے۔ یہ مہینہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی فتح وہ ہے جو غرور نہیں بلکہ شکر اور اصلاح کا باعث بنے۔قربانی کا پیغام اخلاص، عاجزی اور اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق ہے، جو ہمیں ریا اور فخر سے پاک زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنے دلوں میں خود احتسابی کرتے ہیں، اپنے اعمال کی جانچ کرتے ہیں اور اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف فرد کی اصلاح کا ذریعہ ہے بلکہ سماجی مساوات، ہمدردی اور بھائی چارے کا مظہر بھی ہے۔ گوشت کی تقسیم کے ذریعے ہم غریب و محتاج کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور یوں امت کی بنیاد محبت، تعاون اور یکجہتی پر مضبوط ہوتی ہے۔
ذوالحجہ کا اصل پیغام یہ ہے کہ قربانی کو صرف ایک رسم نہ سمجھیں، بلکہ اسے اپنی زندگی کا مستقل شعار بنائیں۔ اپنی خواہشات، انا اور دنیاوی مفادات کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کریں تاکہ ہمارا ہر عمل عبادت اور ہر دن عید کا دن بن جائے۔
آئیے! اس ذوالحجہ پر ہم سب عہد کریں کہ ہم اپنی زندگیوں میں قربانی کے اس عظیم جذبے کو زندہ رکھیں گے، اخلاص اور محبت کے ساتھ اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہیں گے اور اپنی ذات، خاندان، اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے رہیں گے۔اللہ ہم سب کو اپنی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانیاں قبول فرمائے۔ آمین!