وفاقی بجٹ اور قبائلی اضلاع کی ترقی کا مطالبہ
وفاقی بجٹ پر خیبر پختونخوا کے عوام اور تاجروں کی جانب سے ملاجلا ردعمل آرہا ہے۔ سرحد چیمبر آف کامرس نے چھوٹے تاجروں پر ٹیکس کو مسترد کیا ہے، صنعتوں کیلئے ایف بی آر کے نئے قوانین پر بھی تاجروں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے مطابق انہوں نے جو تجاویز وفاقی حکومت کو بھیجی تھیں وہ بجٹ تجاویز میں شامل نہیں کی گئیں۔ وفاقی بجٹ پر نظردوڑائی جائے تواس میں خیبرپختونخوا کیلئے کوئی خاص خوشخبری نہیں۔ وفاق کی جانب سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیاگیا ہے ؛چنانچہ امکان ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت بھی اس کو مدنظررکھتے ہوئے تنخواہوں اور پنشن میں کسی بڑے اضافے کا اعلان نہیں کرے گی۔ اگرچہ وفاق اور صوبائی حکومتیں کہہ رہی ہیں کہ ان کے بجٹ سرپلس ہیں لیکن اس کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کل 13جون کو جو بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے اس میں عوام کو کیا ریلیف دیتی ہے۔ وفاقی کی جانب سے پراپرٹی پر مختلف ٹیکس کم کئے گئے ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے بھی اراضی کے انتقال وغیرہ پر ٹیکس کم کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹیز کی اراضی کے انتقال کی فیس دو فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے بجٹ کا حجم 2000 ارب روپے متوقع ہے۔ محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق بجٹ 200 ارب روپے سرپلس ہوگا۔ مجموعی ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد اضافے کی تجویز پیش کئے جانے کا بھی امکان ہے۔ 500 نئی سکیمیں بھی شروع کی جائیں گی۔ یہ موجودہ صوبائی حکومت کا ایک طرح سے پہلا باقاعدہ بجٹ ہوگا؛چنانچہ اس بجٹ سے عوام نے کافی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیاجائے۔
بجٹ سے قبل وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے پشاور کادورہ کیا جہاں انہوں نے قبائلی جرگے سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورسمیت وفاقی اور صوبائی وزراء بھی شریک تھے۔ اس دورے اور ملاقات کا مقصد قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہتربنانا اور ان علاقوں کے عوام کے تحفظات دور کرناتھا۔ اس سے قبل بھی قبائلی جرگے اورحکومت کے مابین متعدد ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ این ایف سی ایوارڈپر مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس پر نظرثانی کی جائے۔ یہ مطالبہ بھی کیاگیا ہے کہ قبائلی اضلاع کیلئے سالانہ100 ارب روپے دینے کاوعدہ پورا کیاجائے۔ وزیراعظم نے قبائلی عمائدین کے تحفظات بھی سنے اور انہیں دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور گزشتہ ایک سال سے وفاقی حکومت سے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کامطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ قبائلی اضلاع کیلئے سالانہ 100 ارب روپے دینے کاوعدہ کیاگیاتھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں تعمیر وترقی کا کام شروع نہیں ہوسکا۔
یہ مطالبہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے متعدد بار سامنے آچکا ہے، گزشتہ دنوں وزیراعظم کے سامنے دوبارہ یہ مسئلہ اٹھایاگیاجس پر وزیراعظم نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وفاق اور خیبرپختونخوا کو امن وامان کیلئے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ خیبرپختونخوا کا امن قبائلی علاقوں کی ترقی سے مشروط ہے۔ بدقسمتی سے وفاق اور صوبائی حکومت اس معاملے میں زیادہ سنجیدگی نہیں دکھا پائیں لیکن حالیہ یقین دہانیوں سے لگ رہا ہے کہ معاملات سدھرنے کی طرف جارہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے معدنیات سے مالامال ہیں۔ تیل اور گیس کے ذخائر بھی یہاں سے نکل رہے ہیں مگرامن کی بحالی کے بعد ہی یہاں کسی قسم کی انویسٹمنٹ آسکتی ہے جس سے نہ صرف اس خطے کے عوام بلکہ ملک کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔ وفاقی بجٹ میں سابق فاٹا اور پاٹا کا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ حالانکہ قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے وقت کہاگیاتھا کہ قبائلی اضلاع کیلئے ٹیکس استثنیٰ بتدریج ختم کیاجائے گا لیکن اس کے ساتھ ان علاقوں کیلئے دس سال تک سالانہ 100ارب روپے دیئے جانے کا وعدہ بھی کیاگیاتھا،یعنی ایک طرح سے ٹیکس سے استثنیٰ ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں سے مشروط تھا۔ قبائلی اضلاع کیلئے سالانہ 100 ارب روپے تو نہ مل سکے لیکن ٹیکس استثنیٰ ختم کیاجارہا ہے، جس کے خلاف یقینی طورپر ردعمل آئے گا۔
خوش آئند بات ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بحال ہورہے ہیں۔ وفاقی سطح پر اس حوالے سے مختلف کاوش کی جارہی ہیں مگران اقدامات کے باوجود خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں، اگرچہ ان میں واضح کمی آئی ہے اورامید ہے کہ مستقبل قریب میں مزید ایسے اقدامات کئے جائیں گے جس سے یہاں کے لوگ امن کی سانس لے سکیں۔ خیبرپختونخوا کاسب سے بڑا مسئلہ امن وامان ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی مشترکہ کوششوں کے بغیر امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ خیبرپختونخوا حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج کرپشن کا خاتمہ بھی ہے۔ امن وامان کیلئے وفاق سے پیسہ مل جائے تو اسے درست جگہ پر لگانا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ فی الوقت مبینہ کرپشن کی نت نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے انسداد رشوت ستانی بریگیڈیئر(ر)مصدق عباسی تسلیم کررہے ہیں کہ کوہستان میں کرپشن ہوئی ہے۔ اسی طرح سولر پراجیکٹس میں بھی مبینہ طورپر کرپشن سامنے آئی ہے۔ کرپشن کی جوکہانیاں سامنے آرہی ہیں وہ پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے افسوسناک امر ہے۔ اس صوبے میں گزشتہ دس سال سے زائد عرصے سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے، موجودہ حکومت کرپشن کا ملبہ گزشتہ دوحکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے مسندِ اقتدار سنبھالتے ہی کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کیاتھا۔ انہیں اپنے اس نعرے پرعملدرآمد کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات صوبائی حکومت کی کارکردگی میں آڑے آرہے ہیں۔ اس وقت صوبے کے تین بڑوں کے مابین حالات زیادہ سازگار نہیں۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کے مابین تندوتیز بیانات تو سامنے آتے ہی رہتے ہیں اب کچھ عرصے سے وزیراعلیٰ ہاؤس اور سپیکر ہاؤس کے مابین بھی سرد جنگ چل رہی ہے۔ بظاہر ان اختلافات کا کھل کر اظہار نہیں کیاجارہا لیکن اندرون خانہ اس صورتحال سے ورکرز اور پارٹی قیادت پریشان ہے۔ دوسری جانب بانی پی ٹی آئی نے اپنی رہائی کی تحریک سے علی امین گنڈاپور کو ایک طرح سے الگ کردیا ہے، لیکن یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ وسائل کے بغیر کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی اور فی الوقت تمام وسائل کا کنٹرول صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے علی امین گنڈاپور کے ہاتھ میں ہے۔