سندھ بجٹ،ریلیف کی امید یا ٹیکسوں کا بوجھ؟

سندھ میں گزشتہ دو ہفتے کے دوران متعدد اہم اقدامات کئے گئے۔ 15جون سے پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی ہوگی، کراچی میں فور سیٹر رکشوں پر پابندی سمیت ون ویلنگ اور رانگ سائیڈ پر چلنے والوں کے خلاف بھاری جرمانوں کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔
عید الاضحی پر آلائشوں اور کچرے کے جمع ہونے پر سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا۔ سندھ کا بجٹ کل جمعہ کے روز پیش کیا جارہا ہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں صوبائی بجٹ کی جسے صوبائی وزیر منصوبہ بندی ناصر شاہ کی زیر صدارت تین روزہ اجلاس میں حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 600ارب روپے، زراعت کے لیے 13 ارب، سکول ایجوکیشن کے لیے 8 ارب اور محکمہ صحت کے لیے 51 ارب روپے مختص کئے جانے جبکہ بلدیات کے لیے 13ارب اور آب پاشی کے لیے 96ارب روپے رکھے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بجٹ تجاویز پر غور کے لیے کابینہ کا اجلاس بھی ہوچکا ہے جس میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ صوبے کے بجٹ میں عوام کو حقیقی فائدہ پہنچانے والی نئی سکیمیں شروع کی جائیں گی۔ وفاق سے ملنے والی فنڈنگ اور صوبائی محصولات کی بنیاد پر بجٹ بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی کی فراہمی، نکاسی آب، سولر سسٹم، زراعت، صحت، تعلیم اور صنعتی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ بلدیاتی اداروں کو مزید مستحکم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
کراچی میں پچھلے کچھ روز سے مسلسل زلزلے کے جھٹکے آرہے ہیں۔ دواورتین جون کی درمیانی رات بھی زلزلے کے جھٹکے آئے۔ خوف کہہ لیں یا افراتفری کہ اس کا فائدہ اٹھا کر ملیر جیل سے سوا دو سو کے قریب قیدی بھاگ نکلے۔ بہت سے پکڑے بھی گئے مگر 80 کے قریب اب تک لاپتا ہیں۔ ایک قیدی نے خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے خودکشی بھی کرلی۔ ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ جیل کی نگرانی کے لیے پولیس اہلکاروں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ حکومت کو اس تعداد کو مناسب حد تک لے جانے پر غور کرنا چاہیے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر میں قربانی کے بعد آلائشیں اور کچرا اٹھانے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن بھلا ہو عوام کا جس نے گندگی پھیلانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ کوئی گلی، محلہ ایسا نہیں ہوگا جہاں لوگوں نے جانور ذبح کرنے کے بعد آلائشیں پڑی نہ رہنے دی ہوں۔ موقع غنیمت جان کر ایم کیو ایم نے سٹی حکومت پر تنقیدکی بارش کردی۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے میئر کو نااہل قرار دے دیا۔ مرتضیٰ وہاب نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا کہ مخالفین الزامات کی سیاست کر رہے ہیں انہوں نے صفائی ستھرائی کے لیے شہری حکومت کے عزم کا اظہار کیااور بولے کہ بڑی سڑکوں کی دھلائی اور عرق گلاب سپرے کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ضلع وسطی کے پانچوں ٹاؤن جماعت کے پاس ہیں لیکن وہاں بھی صورتحال بہت اچھی نہیں۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ عید کے تین دن میں 146800ٹن کے قریب آلائشیں اور کچرا اٹھا کر لینڈ فل سائٹس پر منتقل کیا گیا۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کی کہ شہر کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں۔ شہر کی صفائی یقیناً شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن شہریوں کی بھی کوئی ذمہ داری بنتی ہے یا نہیں؟ کیا ان میں معمولی سا بھی سماجی شعور نہیں کہ قربانی کے بعد آلائشوں کو مقرر جگہوں تک پہنچائیں، اپنی گلی اور محلہ صاف رکھیں۔ ہر بات میں میئر یا شہری انتظامیہ پر تنقید کسی طرح مناسب نہیں۔
مرتضیٰ وہاب نے گزشتہ ہفتے اورنگی ٹاؤن کا بھی دورہ کیا اور پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کے حوالے سے عوام کو آگاہی دی۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ سڑکوں کی تعمیر کے دوران کسی قسم کا غیرمعیاری کام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غیرمعیاری سڑکیں بنانے والے ٹھیکے دار بلیک لسٹ ہوں گے اور کے ایم سی کا کوئی افسر اس گڑبڑ کا حصہ دار ثابت ہوا تو اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی آلائشیں اٹھانے کا کام کیا گیا ہے۔ شکایت تو ہر جگہ ہوتی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے لیے اقدامات کیے گئے اور اگر کہیں خامی رہ گئی ہے تو اسے دور بھی کیا جانا چاہیے۔
صوبائی وزیرداخلہ اور قانون ضیاالحسن کی زیر صدارت موٹر وہیکلز رولز میں ترامیم سے متعلق اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔ شہر میں چار نشستی رکشوں پر مکمل پابندی لگانے کے لیے ترامیم کی منظوری دی گئی، رانگ وے کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ کرنے کا بھی فیصلہ کیاگیا ہے، چاہے گاڑی سرکاری ہو یا غیر سرکاری یا پھر موٹرسائیکل کسی کو رعایت نہیں ملے گی۔ سرکاری گاڑی کو دولاکھ روپے جرمانے کا سامنا کرنے پڑے گا۔ بغیر لائسنس موٹرسائیکل چلانے اور کار چلانے پر بھی بھاری جرمانہ ہو گا۔ رکشوں کو سڑک پر لانے سے قبل اجازت لینا ہوگی، ون ویلنگ اورڈرفٹنگ پر پہلی بار ایک لاکھ روپے، پھر دو اور تین لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح مال بردار گاڑیوں کے لیے سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ ان گاڑیوں میں کم از کم پانچ کیمرے لگانا لازم ہوگا۔ واٹرٹینکرز اور ڈمپرز میں ٹریکر اور سینسرز بھی لازمی لگانا ہوں گے۔ چمکتی ہوئی لائٹس، ہوٹر کی ہر قسم کی فروخت پر پابندی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اگر یہ ترامیم پاس ہوجاتی ہیں اور ان پر عمل درآمد شروع ہوجاتا ہے تو کراچی سمیت صوبہ بھر کے عوام ہمیشہ پیپلز پارٹی کے شکر گزار رہیں گے۔