پنجاب کا بجٹ کیسا ہو گا ؟ ریلیف یکساں کیوں نہیں؟

مالی سال 2025-26ء کے بجٹ کے حوالے سے ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ یہ حکومتی خود اعتمادی کا مظہر ہے اوراس پر کوئی سیاسی دبائو نہیں۔ بجٹ کے ذریعے حکومت نے خود کو تنخواہ دار طبقہ میں سرخرو کرنے کی کوشش کی ہے جو اس وقت مہنگائی کا بُری طرح شکار ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کا یہ اعتراف قابلِ ذکر ہے کہ اب تک تنخواہ دار طبقہ نے ہی سارا بوجھ اٹھایا ہے۔ وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ تنخواہ دار طبقہ نے چار سو ارب روپے ٹیکس دیا ، اس کے مقابلہ میں اشرافیہ نے کتنا ٹیکس دیا مجھ سمیت سب کو اس کاجواب دینا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک طرف پاکستان کی اشرافیہ کی عیاشیاں ہیں تو دوسری جانب تنخواہ دار طبقہ کیلئے زندگی اجیرن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقہ کے ہاں کسی حد تک سرخرو ہونے کی کوشش کی ہے۔ تنخواہوں میں 10 فیصد کا اضافہ اور تنخواہوں پر ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، لیکن سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے ساتھ اگر وزرا اور خصوصاً چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد کے اضافہ کو دیکھا جائے تو یہ خود حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ریلیف کا عمل چادر دیکھ کر کیا ہے مگر یہ کیسی چادر ہے جس میں اشرافیہ کیلئے بے دریغ ریلیف اور ملازمین کیلئے محدود ریلیف ہے۔ یہ دہرا معیار ہے اور اسی وجہ سے مسائل زدہ عوام حکومتوں اور اہل سیاست سے عدم وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں کو اب حکومتوں سے زیادہ توقعات بھی نہیں رہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ بڑھتے ہوئے مسائل خصوصاً مہنگائی اور بے روزگاری پر متاثرین حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں مگر ان حالات میں اپوزیشن عوام کی آواز بننے کو تیار نظر نہیں آتی۔ ان کا احتجاج اپنی قیادت کیلئے ریلیف تک محدود ہے۔ وہ عوام کے مسائل کے ساتھ سیاست کو مشروط کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ پنشن میں بھی اضافہ کیا گیا ہے لیکن پنشنرز پر اب یہ تلوار لٹکتی نظر آ رہی ہے کہ پنشن دس سال تک محدود ہو گی۔ جہاں تک ملکی معیشت اور اس حوالے سے حکومتی معاملات اور کردار کا تعلق ہے تو اکنامک سروے لمحہ فکریہ ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے اقتصادی اہداف خصوصاً زراعت، صنعت کے اہداف پورے نہیں ہوئے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک سب کیلئے شرمناک ہے۔
اعداد و شمار کی حد تک تو بجٹ قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے مگر عملاً دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کو اکاموڈیٹ کیا گیا ہے، جس کا اعتراف خود حکومت بھی کرتی نظر آئی ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ سے خطاب میں اس کاذکر کیا۔ البتہ اس بجٹ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں یہ خطرہ اور خدشہ نظر نہیں آتا کہ حکومت پر یا ملکی معیشت پر دیوالیہ پن کا خطرہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ حکومت نے بڑی حد تک آئی ایم ایف کو مطمئن کیا ہے اور اسی بنا پر انہوں نے پاکستان کو سات ارب کا پروگرام دیا جس کے نتیجہ میں معیشت کو سنبھالا ملا اور اندرون و بیرونی سرمایہ کاری کا عمل تیز ہوا۔ جہاں تک بجٹ میں اپوزیشن کے طرز عمل کا سوال ہے تو اپوزیشن نے روایتی احتجاج کیا مگر بجٹ کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ کیا ہماری سیاسی تاریخ میں ہر اپوزیشن اسی عمل کو دہراتی رہے گی؟ ماضی میں ایوانوں کے اندر پری بجٹ بحث ہوتی تھی ،اپوزیشن حکومت کو اپنی تجاویز دیتی تھی اور کسی حد تک ان تجاویز کو حکومت بجٹ میں اکاموڈیٹ بھی کرتی تھی لیکن کچھ سالوں سے حکومت اپنی من مانی کرتے ہوئے بجٹ منظور کروا لیتی ہے جبکہ اپوزیشن بجٹ تجاویزکے بجائے ہنگامہ برپا کئے رکھتی ہے۔ اچھا ہو اگر اپوزیشن بجٹ تجاویز پیش کرے اور بتائے کہ اس کا اس سنجیدہ عمل کے حوالے سے کیانقطہ نظر ہے اور وہ اسے کس طرح دیکھتی ہے اور اس کے سامنے مفاد عامہ میں کیا اقدامات ضروری ہیں۔
ابھی صوبوں کے بجٹ بھی آ رہے ہیں۔ یقیناوفاق کے بجٹ کے بعد صوبوں کے بجٹ میں بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ وفاقی شرح کے مطابق ہو گا لیکن 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس وسائل وافر ہوتے ہیں اور صوبے ان وسائل کو خرچ کرکے مفاد عامہ میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت جاری سسٹم میں تین صوبوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہے، لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ صوبے اپنے بجٹ میں کیا ترجیحات ظاہر کرتے ہیں اور اپنے عوام کیلئے ان کے بجٹ میں کیا ہے۔
جہاں تک پنجاب حکومت کا سوال ہے تو یہ حکومت اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت مفاد عامہ میں کام کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس کا بڑا مقصد اپنی مقبولیت کی بحالی اور صوبہ کی ترقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے بجٹ کے حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ صوبہ میں ترقیاتی عمل کو ترجیح دیتے ہوئے عوامی فلاح اور مفاد عامہ کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اگر حکومت اپنے وسائل کو واقعتاً عوام کی فلاح اور صوبہ کی ترقی اور گورننس کے عمل کو یقینی بنانے پر خرچ کر ے تو حکومت سیاسی اور عوامی عدالت میں سرخرو ہو سکتی ہے۔ ویسے حکومتی اقدامات سے نظر آتا ہے کہ وہ اپنے اداروں اور محکموں کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہے اور خود کو جوابدہ سمجھتی ہے۔ اس کی ایک مثال عیدالاضحی کے موقع پر صفائی کے اقدامات تھے۔ لاہور سمیت صوبہ بھر کے شہروں اور قصبات سے آمدہ اطلاعات کے مطابق حکومت اس حوالے سے سرخرو ہوئی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہنگامی بنیادوں پر شہروں، قصبات اور ان کے متعلقہ علاقوں کو آلائشوں سے پاک کیا گیا بلکہ ان علاقوں میں آلائشوں کی وجہ سے پیدا شدہ بدبو کا بھی خاتمہ کیا گیا۔ مطلب یہ کہ حکومتیں اگر کسی کام کو چیلنج سمجھ کر میدان میں اتر آئیں تو متعلقہ اداروں کو بھی نتائج کی فراہمی یقینی بنانا پڑتی ہے۔ اہلکاروں کے ساتھ حکام پر بھی تلوار لٹکی نظر آتی ہے۔ جب حکومتوں میں ذمہ داری کا احساس ہو اور وہ عوام کی ریلیف اور ان کیلئے سہولتوں بارے خود کو جوابدہ سمجھیں تو اس عمل سے مسائل کا خاتمہ ہوتا ہے اور سسٹم مضبوط ہوتا ہے۔
اب اگلہ مرحلہ پنجاب کے بجٹ کا ہے ، دیکھنایہ ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی حکومت کا بجٹ کس حد تک پنجاب اور پنجاب کے عوام کے مسائل کے حل بارے سنجیدہ اور قابلِ عمل نظر آتا ہے۔