کفایت شعاری:شریعت اسلامی کی نظر میں

تحریر : مولانا قادری محمد سلمان عثمانی


کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان خرچ، اخراجات اورخریداری کے معاملے میں اعتدال و توازن اورمیانہ روی اختیار کرے اورغیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ہم مسلمان ہیں اوراسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔

کھانے پینے کے معاملے میں قرآن مجید کی ہدایت ہے: ’’کھاؤ پیو اوراسراف (فضول خرچی)نہ کرو‘‘۔اسی طرح جو لوگ عام زندگی میں مسرفانہ رویہ اپناتے ہیں،انہیں شیطان کے بھائی قراردیا گیاہے، ’’بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ گویا فضول خرچی ایک شیطانی طرز عمل ہے جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

کفایت شعاری اور وسائل کے بہترین استعمال کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اور نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔’’اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 27)۔ آیت سے پتہ چلتا ہے کہ فضول خرچی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے، ’’نہ تو کنجوسی کرو اور نہ ہی بے پناہ خرچ بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو‘‘۔

 حضورﷺ کا فرمان ذی شان ہے ’’جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مالدار بنا دیتا ہے ،اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کردیتا ہے‘‘ (مسند البزار،161/3، حدیث 946)۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے ’’قیامت کے دن ہر فقیر اور مالدار اس کی تمنا کرے گا کہ(کاش) دنیا میں اسے صرف ضرورت کے مطابق رزق دیا جاتا‘‘ (ابن ماجہ : 235)۔

کفایت شعاری کے حوالے سے شیخ سعدیؒ کا مشہور قول ہے کہ ’’جس نے کفایت شعاری اپنائی، اُس نے حکمت ودانائی سے کام لیا‘‘ جب کہ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ’’کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے‘‘ درحقیقت فضول خرچی،سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ جدید دور میں اشتہاربازی نے ہماری زندگیوں سے سادگی کو ختم کردیا ہے،نئے فیشن،نئے ڈیزائن،نئی نئی چیزوں کی کثرت نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ہم نئی چیزوں اور فیشنوں کے شوق میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں،پھر قرض لیتے ہیں اورکچھ نہیں تو قرض پر چیزیں لے کر قسطوں میں ادائیگیاں کرتے ہیں۔ 

نبی کریم ﷺاورصحابہ کرام نے ہمارے لیے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا،وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی تھا۔ہم نے سادگی کے اس راستے کو چھوڑ کر خود کو مشکل میں مبتلا کرلیا ہے کفایت شعاری ہماری اپنی ضرورت بھی ہے۔ کم روپیہ خرچ کریں گے،غیر ضروری اخراجات سے بچیں گے توہم کچھ پس انداز اوربچت کرنے کے لائق ہوسکیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭