مطالعہ کرنے کا بہترین طریقہ

مطالعہ کرتے وقت اچھی روشنی میں بیٹھنا چاہیے۔ اس طرح کہ تحریر پر سایہ نہ ہو۔ روشنی سامنے سے آنا نقصان دہ ہے، کسی بھی ایسے انداز میں نہ بیٹھیں جس سے آنکھوں پر زور پڑے، مثلاً مدھم روشنی میں چلتے پھرتے یا جھک کر مطالعہ کرنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہم مطالعہ کرنے کا بہترین طریقہ اور چند اہم ہدایات بیان کرتے ہیں۔
٭… کتاب کا سرسری جائزہ لیں۔
٭… کتاب کے نفس مضمون پر غور کریں۔
٭… فہرست عنوانات کو غور سے پڑھیں۔
٭… کتاب پر کسی شخص کا تبصرہ یا رائے شامل کتاب ہو تو اسے بغور پڑھ لیں۔
٭… کسی بھی کتاب کا آغاز اور اختتام قابل توجہ ہوتا ہے شروع یا آخر میں ایک دو جملے کلیدی ہوتے ہیں انہیں Underlineکر لیں۔
٭… کتاب کا مطالعہ کرتے وقت نوٹس ضرور لیتے جائیں جو مختصر سے پوائنٹس ہوں۔ اس سے ایک خاکہ تیار ہو جائے گا۔ انہیں بعد میں ایک تسلسل سے لکھ لیں
٭… اہم نکات کو ہائی لائٹ کر لیں تاکہ نظر ثانی کے وقت یا سبق کو دہراتے وقت ان سے مدد لی جا سکے۔
٭… ہر باب کا خلاصہ چند سطروں میں نوٹ کر لیں۔ بعد ازاں باب کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
٭… مطالعہ کا بہترین وقت رات سونے سے چند گھنٹے قبل اور صبح سویرے کا وقت ہوتا ہے۔
٭… جزئیات اور تفصیلات کو نظر انداز نہ کریں۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی کسی موضوع کا مغز نظر انداز ہو جاتا ہے۔
٭… کسی ایک موضوع پر زیادہ لوگوں کی رائے تک پہنچیں عام طور پر ہر کتاب کے آخر میں کچھ کتابوں کی فہرست( کتابیات) دی ہوئی ہوتی ہیں۔ کوشش کیجئے کہ ان میں سے بھی کچھ کتابیں آپ کے زیر مطالعہ آ جائیں۔
پروفیسراشفاق علی خان ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج، کیمبل پور( موجودہ اٹک) کے پرنسپل تھے۔ ان کا اپنا مضمون انگریزی تھا۔ ریل کے ایک سفر کے دوران ان کے ایک دوست اپنے بیٹے کے ہمراہ ان سے ملے اور بتایا کہ برخوردار ایم اے کر چکا ہے اور سول سروس کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے مگر اس کی انگریزی کمزور ہے۔ اس دوست نے پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ وہ ان کے بیٹے کو انگریزی بہتر بنانے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ پروفیسر صاحب نے اس نوجوان سے کہا کہ وہ سیکنڈ ہینڈ بکس کے سٹالوں مختلف ناول لے آیا کریں۔ ان ناولوں کے مطالعہ سے اس کی انگریزی تحریر بہتر ہو جائے گی۔
یہ سفر تمام ہوا تو دونوں دوست اپنی اپنی منزل کی طرف چلے گئے۔ اس نوجوان نے پروفیسر صاحب کا مشورہ یاد رکھا۔ چند سال بعد اس نوجوان کی ملاقات پروفیسر اشفاق علی خان سے ہوئی۔ نوجوان نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے ان کے مشورے پر عمل کیا تھا جس سے نہ صرف اس کی انگریزی بہتر ہو گئی بلکہ اس نے سی ایس ایس کے امتحان میں پوزیشن حاصل کی۔
خود پروفیسر صاحب کا معمول یہ تھا کہ گھر میں جن لفافوںمیں سودا سلف آتا، رات کو ان کو بھی سونے سے پہلے کھنگالتے تھے۔ مبادا ان میں سے کوئی خوبصورت لفظ، کوئی جملہ، کوئی سطر ایسی مل جائے جو مستقبل میں کچھ لکھتے وقت ان کے کام آئے۔