خلافت عثمانی کی عظیم الشان فتوحات

عہد عثمانی میںممالک محروسہ کا دائرہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، رقہ اور مراکش مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کو پہنچی۔ افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔ دوسری سمت آرمینیا اور آزربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔
فتح طرابلس
مہم طرابلس کا اہتمام تو 25ھ میں ہوا لیکن باقاعدہ فوج کشی 27ھ میں ہوئی۔ عبداللہ بن ابی سرح ؓگورنر مصر تھے، حضرت عثمانؓ نے دارالخلافہ سے بھی ایک لشکر جرار کمک کیلئے روانہ کیا ،جن میں عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔اسلامی فوجیں مدت تک طرابلس کے میدان میں معرکہ آراء رہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کی شجاعت، جان بازی اور ثبات واستقلال کے آگے اہل طرابلس کے پائوں اکھڑ گئے۔ عبداللہ بن ابی سرحؓنے فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکر تمام ممالک میں پھیلا دئیے، طرابلس کے امراء نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہے تو عبداللہ بن ابی سرحؓ کے پاس آکر پچیس لاکھ دینار پر مصالحت کرلی۔
فتح افریقہ
افریقہ سے مراد وہ علاقے ہیں جن کو اب الجزائر اور مراکش کہا جاتا ہے ۔یہ ممالک 26ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی ہمت و شجاعت اور حسن تدبیر سے فتح ہوئے۔ اس سلسلہ میں بڑے بڑے معرکے پیش آئے اور بالآخر کامیابی اسلامی فوج کو حاصل ہوئی اور یہ علاقے بھی ممالک محروسہ میں شامل ہوئے۔
اسپین پر حملہ
افریقہ کی فتح کے بعد اسپین کی فتح کا دروازہ کھلا۔27ھ میں حضرت عثمانؓنے اسلامی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، عبداللہ بن نافع بن عبدقیس ؓ اور عبداللہ بن نافع بن حصینؓ کو اس مہم کیلئے نامزد کیا، جنہوں نے کچھ فتوحات حاصل کیں لیکن پھر مہم روک دی گئی۔ عبداللہ بن ابی سرحؓ مصر واپس بھیجے گئے اور عبداللہ بن نافع بن عبدالقیس ؓافریقہ کے حاکم مقرر کئے گئے۔
فتح قبرص
قبرص جس کو اب سائپرس کہتے ہیں بحرروم میں شام کے قریب ایک نہایت زرخیز جزیرہ ہے اور یورپ اور روم کی طرف سے مصر وشام کی فتح کا دروازہ ہے۔ مصر وشام کی حفاظت اس وقت تک نہیں ہوسکتی اور نہ رومیوں کا خطرہ اس وقت تک دور ہوسکتا تھا جب تک یہ بحری ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو۔ اس لئے امیر معاویہ ؓنے عہد فاروقیؓ ہی میں اس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی تھی مگر حضرت عمر ؓبحری جنگ کے خلاف تھے اس لئے انکار کردیا۔ اس کے بعد 28 ھ میں امیر معاویہ ؓنے پھر حضرت عثمان ؓسے اصرار کے ساتھ قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی اور اطمینان دلایا کہ بحری جنگ کو جس قدر خوفناک سمجھا جاتا ہے اس قدر خوفناک نہیں ہے۔ حضرت عثمان ؓنے لکھا کہ اگر تمہارا بیان صحیح ہے تو حملہ میں مضائقہ نہیں لیکن اس مہم میں اسی کو شریک کیا جائے جو اپنی خوشی سے شرکت کرے۔ اس اجازت کے بعد عبداللہ بن قیسؓ کی زیر قیادت اسلامی بحری بیڑہ قبرص پر حملہ کیلئے روانہ ہوا اور صحیح وسلامت قبرص پہنچ کر لنگر انداز ہوااور اہل قبرص کو مغلوب کرلیا۔
ایک عظیم الشان بحری جنگ
31 ھ میں قیصر روم نے ایک عظیم الشان جنگی بیڑا ،جس میں تقریباً پانچ سو جہاز تھے سواحل شام پر حملہ کیلئے بھیجا۔ امیر البحر عبداللہ بن ابی سرحؓ نے مدافعت کیلئے اسلامی بیڑے کو آگے بڑھایا اور سطح سمندر پر دونوں آمنے سامنے آگئے۔ مسلمانوں نے اپنے تمام جہاز ایک دوسرے سے باندھ دئیے اور فریقین میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کے استقلال وشجاعت سے رومیوں کے پاؤں اکھڑگئے اور اسلامی بیڑہ مظفر ومنصور اپنی بندرگاہ میں واپس آیا۔
متفرق فتوحات
متفرق فتوحات:قبرص، طرابلس اور طبرستان کے علاوہ حضرت عثمان ؓکے عہد میں اور بھی فتوحات ہوئیں31 ھ میں خبیب بن مسلمہ فہری نے آرمینیہ کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں شامل کرلیا۔