اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب مشتاق احمد یوسفی

اردو ادب میں طنز و مزاح کی دنیا کئی قدآور شخصیات سے روشن ہے، مگر جس بلندی پر مشتاق احمد یوسفی کا نام جگمگاتا ہے، وہ ایک عہد، ایک معیار اور ایک حوالہ بن چکا ہے۔
ان کی تحریریں محض ہنسانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسی فکری دولت ہیں جن میں دانش، مشاہدہ، زبان کی چاشنی اور تہذیبی حوالوں کا حسین امتزاج ملتا ہے۔بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود یوسفی صاحب نے جو نثر لکھی، وہ ادب کے آسمان پر ستارے کی مانند چمکی۔ اُن کے جملوں میں مزاح کے ساتھ ساتھ تہذیبی گہرائی، فکری لطافت اور زبان کا ایسا بانکپن ہے جو قاری کو مسکرانے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔
یہ اردو زبان و ادب کی خوش قسمتی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی جیسا ادیب اور دانشور اسے میسر آیا۔ تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ ناقدین فن کا اس امر پر اتفاق بھی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب ہیں۔ کسی ادیب کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے محبت اور اخلاص سے اپنایا جائے اور اپنا سرمایہ تسلیم کیا جائے ۔
مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923ء کو راجھستان کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ 1945ء میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ 1946ء میں پی سی ایس کر کے وہ ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ اگلے ہی برس یعنی 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے۔ یکم جنوری 1950ء کو مشتاق احمد نے بھی اپنا بوریا بستر باندھا اور کراچی آ بسے۔کراچی آ کر انھوں نے اپنا شعبہ بدل لیا اور سول سروس کے بجائے بینکنگ سے وابستہ ہو گئے۔ اس شعبہ میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 1974ء میں وہ ایک بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ 1979ء میں انہوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں، اور بالآخر 1990 میں ریٹائر ہو کر مستقل کراچی آ بسے اور تادمِ مرگ وہیں مقیم رہے۔ بینکنگ کے شعبے میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیںقائد اعظم میڈل سے نوازا گیا۔
ادب کی دنیا کے عظیم انسان ابن انشاء نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’اگر مزاح کے دور کو کسی کے نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے تو بلاشبہ وہ ایک ہی شخصیت ہے، جس کا نام ہے مشتاق احمد یوسفی۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے بقول ’’ہم مزاح کے عہد یوسفی میں زندہ ہیں‘‘۔ لطافت اورمزاح نگاری کی سلطنت پر برسوں راج کرنے والے ممتاز ادیب کی ساتویں برسی تین دن بعد ہے ۔
مزاح نگاری کی دنیا میں ہر مزاح نگار نے اپنا ایک منفرد اسلوب متعارف کرایا ہے، اردو مزاح نگاروں کی اکثریت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں امتیاز علی تاج، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن اور ابنِ انشا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظرکشی سے نہیں بلکہ صورتحال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی فلسفے کی ڈگری کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ وہ کرداروں سے نہیں بلکہ الفاظ کے ہیر پھیر، لسانی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا بلکہ ہر فقرے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے۔
یوسفی نے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز 1955ء میں کیااور پہلا مضمون ’’صنفِ لاغر‘‘ کے نام سے لکھاجو ترقی پسند رسالے ’’سویرا ‘‘ میں شائع ہواجس کے اس وقت مدیر حنیف رامے تھے۔ حنیف رامے کی شہ پا کر یوسفی نے مختلف رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کیے جو 1961ء میں یوسفی کی شائع ہونے والی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ کا حصہ بنے۔ لوگوں نے اس سے قبل اس قسم کی تحریریں پڑھی نہیں تھیں اس لیے انہیں لے کر خوب بحث ہوئی، سوال اٹھائے گئے کہ ان ادبی پاروں کو کیا کہا جائے؟ انہیں مضمون کا نام دیا جائے، انشائیہ کہا جائے یا پھر افسانے سمجھا جائے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اب تک درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
مشتاق یوسفی کی دوسری تصنیف کیلئے ان کے چاہنے والوں کو تقریباً 9 سال انتظار کرنا پڑا۔ ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں منظرعام پر آئی اوراسے ادبی اعزاز’’ آدم جی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ یہی ایوارڈ 1976ء میں یوسفی کی تیسری کتاب ’’زرگزشت‘‘ کو بھی ملا۔ یہ کتاب بھی پچھلی دونوں کتابوں سے مختلف تھی جسے ان کی ڈھیلی ڈھالی خودنوشت سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود یوسفی نے اسے اپنی ’’سوانحِ نوعمری‘‘ قرار دیا۔ جبکہ اس میں نوعمری کا نام و نشان تک نہیں۔ اس کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب یوسفی نے پاکستان آ کر بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا آغاز کیا ۔
1989ء میں ان کی چوتھی اور ایک اہم ترین کتاب ’’آبِ گم‘‘ شائع ہوئی۔ اس کی ہیئت بھی پچھلی تینوں کتابوں سے مختلف تھی، بعض لوگوں نے اسے ناول بھی قرار دیا۔ اس کے بعد یوسفی نے ایک لمبی چپ سادھ لی، چوتھائی صدی کے مراقبے کے بعد یوسفی کی پانچویں کتاب 2014ء میں چھپی جسے پڑھ کر ان کے مداحوں کو خاصی مایوسی ہوئی۔ اس میں مختلف ادوار میں لکھے گئے مضامین، خطبات اور تقاریر اکٹھی کی گئی تھیں۔
زیادہ تر مضامین میں یوسفی صاحب ہمارے معاشرے کی مضحکہ خیز غلطیوں کے پر مزاح نقاد ہیں۔’’پڑیئے گر بیمار‘‘ میں ہماری تیمارداری کے عام طریقے’’مصنف لاغر‘‘ میں آج کل کی عورتوں کے اپنے کود بلا بنانے کی حماقت زدہ کوششوں اور ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ میں ننگی مصوری کے ذوق کو انہوں نے بے نقاب کیا ہے۔ یہاں ہمیں انسان کی وہ حماقتیں دکھائی دیتی ہیں جن میں وہ نہایت خلوص اور سنجیدگی سے مصروف ہیں اس سلسلے میں ’’موسموں کا شہر‘‘ بہت ہی دلچسپ ہے۔ کراچی میں آ بسنے والے مہاجرین کی جو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ ہر بات پر کراچی کے موسم کو برا کہتے ہیں۔ اس کا یوسفی صاحب نے بے لاگ جائزہ لیا ہے اور اس کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کی آب و ہوا کی شکایت کرنا کتنی بڑی حقیقت اور کس حد تک حماقت ہے۔ اس ضمن کے تمام مضامین میں ’’چار پائی اور کلچر‘‘ مجھے سب سے اچھا لگا۔ چار پائی کا ہماری کلچر میں سچ مچ وہ مقام ہے کہ ہم اسے اپنی کلچر کا اشارہ یہ کہہ سکتے ہیں اور اس کے اس مقام اور اس کے ہزاروں طریقوں پر مضحک استعمال کے جو تاثر وہ سامنے لاتے ہیں وہ دل پر بڑا لطیف اثر کرتے ہیں۔ یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چار پائی کو حد سے زیادہ مضحک بنانے کیلئے وہ کیسے پر مزاح قصے تخلیق کر دیتے ہیں۔
صاحب طرز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی تصنیفات کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کی کتابوں کے مقدمے، اتنے دلچسپ اور پراز مزاح ہوتے ہیں کہ جزو کتاب لگتے ہیں۔ ان مقدموں میں یوسفی کتاب کی وجبہ تصنیف و تالیف ہی بیان نہیں کرتے بلکہ اپنے اور زمانے کے تعلق سے بڑی معنی خیز اور فکر انگیز باتیں، ہنسی ہنسی میں بیان کر جاتے ہیں۔
ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے صدر پاکستان نے 1999ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2002ء میں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 20 جون 2018 کو وہ کراچی میں انتقال کر گئے۔
اقتباسات
فیوڈل فینٹسی
’’بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔ اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ، بگڑے رئیسوں کا تیہا اور ٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِترونا پن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اور ندیدہ پن۔ سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انہی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑ پھوڑ کر مداری بن جاؤں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور ’’بچہ لّوگ‘‘ سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بدتر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تو میرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ اور پیٹنٹ لیدر کے پمپ شوز پہن کر اسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں‘‘۔
’’چارپائی‘‘
’’اردو میں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اور کسی ترقی یافتہ زبان میں شاید ہی مل سکے۔ کھاٹ، کھٹا، کھٹالہ، اُڑن کھٹولہ، کھٹولی، کَھٹ، چَھپر کَھٹ، کھرا، کھری، جھلگا، پلنگ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، چارپائی نواری، مسہری، منجی۔ یہ نامکمل فہرست صرف اردو کی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پر دال ہے اور ہمارے تمدن میں اس کا مقام ومرتبہ متعین کرتی ہے لیکن چارپائی کی سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس کے بچے کھچے اور ٹوٹے ادھڑے بانوں میں اللہ کے برگزیدہ بندے محض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔
اس قسم کے جھلنگے کو بچے بطور جھولا اور بڑے بوڑھے آلہ تزکیہ نفس کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اونچے گھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رشتے داروں کی طرح کونوں کھدروں میں آڑے وقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ خود مجھے مرزا عبدالودود بیگ کے ہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پر گزارنے کا اتفاق ہوا جس پر لیٹتے ہی اچھا بھلا آدمی نون غنہ (ں) بن جاتا ہے۔ (چراغ تلے سے اقتباس)
یوسفی کے مقبول جملے
٭…معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے، بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔
٭…غالب دنیا میں واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔
٭…بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی ہے۔
٭…مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
٭…ان کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔
٭…دو قسم کے لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں: ایک وہ جو مر جاتے ہیں، دوسرے وہ جو شادی نہیں کرتے۔
٭…بعض لوگ اتنے خوش اخلاق ہوتے ہیں کہ جی چاہتا ہے ان سے دوبارہ بداخلاقی کی جائے
٭…بعض لوگ اتنے پڑھے لکھے ہوتے ہیں کہ زندگی بھر کچھ سیکھ نہیں پاتے۔