بجٹ کی منظوری وزیراعلیٰ کا امتحان
خیبرپختونخوا کاآئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کردیاگیا ہے۔ سرپلس بجٹ کا حجم 2119 ارب روپے ہے۔ تنخواہوں میں 10 اور پنشن میں سات فیصد اضافہ تجویز کیاگیا ہے۔
بجٹ اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے جس میں عوام کیلئے چھپے فوائد کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔وفاقی بجٹ ہو یا صوبائی عوام کی اس سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام‘ جن کی قوتِ خرید پہلے ہی جواب دے گئی ہے اور کمر مختلف قسم کے ٹیکسوں سے دہری ہو چکی ہے انہیں بجٹ کے ہیر پھیر میں کوئی سکھ دکھائی نہیں دیتا۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہر سال بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اورہربجٹ کے بعد منی بجٹ رہی سہی کسر پوری کردیتے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ بڑے پس وپیش کے بعد پیش کیاہے۔ بجٹ پیش کرنے سے قبل پی ٹی آئی میں اس حوالے سے اختلافات عروج پر پہنچ گئے تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ بجٹ بانی پی ٹی آئی کی مشاورت اور منظوری کے بغیرپیش نہ کیا جائے۔ اگرچہ بجٹ کی تیاری،اسے پیش کرنا اور منظور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن وطنِ عزیز میں قانونی اورآئینی تقاضوں کو بھی سیاسی تڑکا لگانا رواج بن گیاہے۔ کچھ لوگوں کا کہناتھا کہ بجٹ پیش ہونا چاہئے لیکن اسے منظور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد کیاجائے گا۔بجٹ بنانا،پیش کرنا اور اس کی منظوری لینا کسی بھی حکومت کی آئینی ضرورت ہے۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی بجٹ پیش کرنے کے حق میں تھے جن کا مؤقف تھا کہ بجٹ پیش تو کردیاجائے گا لیکن اس کی منظوری بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد دی جائے گی۔ علی امین گنڈاپور نے پارٹی کا پارلیمانی اجلاس بھی بلایا اور ارکان اسمبلی کو اعتماد میں لینے کی کوشش بھی لیکن انہیں بجٹ پیش کرنے میں کافی دشواری کاسامنا کرناپڑا۔وہ ارکانِ اسمبلی کو اس شرط پر بجٹ پیش کرنے پر راضی کرسکے کہ اس کی منظوری سے قبل بانی پی ٹی آئی سے ضرور مشاورت کی جائے گی۔ اس اجلاس میں بھی عاطف خان گروپ نے شرکت نہیں کی۔ سابق صوبائی وزیر شکیل خان سمیت کچھ اور ناراض ارکانِ اسمبلی بھی شریک نہیں ہوئے۔ بہرحال یہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا کہ انہوں نے بجٹ پیش کرکے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر دی۔ اس میں تاخیر یا ٹال مٹول کی صورت میں ان کی حکومت کو خطرہ ہوسکتا تھا۔تاہم ان پر بجٹ کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کیلئے پارٹی کی جانب سے ابھ بھی دباؤ ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی پوزیشن اب پارٹی میں پہلے جیسی مضبوط نہیں رہی، اس کی بڑی وجہ وہ وعدے ہیں جنہیں وہ پورا نہ کر سکے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
علی امین گنڈاپور کے پیچھے ہٹنے یا ہٹائے جانے کے بعد پارٹی کی تحریک میں پہلی جیسی جان نہیں رہی۔ اگرچہ وہ ہر تحریک کے آغاز میں پرجوش ہوتے تھے لیکن اختتام اس کا بالکل توقع کے برعکس ہوتا رہا لیکن پھربھی وہ لوگوں کو باہرنکالنے میں کامیاب رہتے تھے۔ صوبائی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد یہ معاملہ قدرے ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ جنیداکبر کو صوبائی صدر بنایاگیا ہے اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے تحریک چلانے کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی جبکہ علی امین گنڈاپور کو حکومتی امور چلانے کی ہدایت دی گئی لیکن جنید اکبر ابھی تک پارٹی کے جلسے جلوسوں یا احتجاج میں جان ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔ کارکنوں کو کیسے اکٹھاکیاجائے یہ بھی ان سے نہیں ہو پارہا۔اس طرح ضلعی سطح پر تنظیمیں بھی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام نظرآتی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ کسی بڑے جلسے یا جلوس کیلئے وسائل کا ہے، جس کیلئے ایک بارپھر پارٹی کو صوبائی حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔بطور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اب بھی پارٹی کی ضرورت ہیں۔ جو وسائل صوبائی حکومت فراہم کرسکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ نئی حکمت عملی کے تحت عمرایوب سمیت کچھ اور رہنماؤں کی پارٹی میں اہمیت بڑھی ہے اور انہیں تحریک چلانے کا ٹاسک دیاگیا ہے۔ علیمہ خان بھی معاملات کو دیکھ رہی ہیں۔
اس سے قبل علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے مابین اختلافات تھے مگرذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور نے اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اختلافات قدرے کم تو ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پارٹی کے اختلافات مزید ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ مختلف گروپس ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں جس سے بانی پی ٹی آئی کیلئے شروع کی جانے والی تحریک کہیں دب کر رہ گئی ہے۔ پارٹی کے اندر کوئی ایسا بڑانام نہیں جو سب کو متحد کرسکے۔ پی ٹی آئی کے اس منظرنامے پر نظردوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے چندہفتوں کے دوران اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی مشکلات بھی۔ اگرچہ ان کی وزارت اعلیٰ کو فی الحال خطرہ نہیں لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ علی امین گنڈاپور کی قانونی جنگ پس پردہ ان کے بھائی فیصل امین گنڈاپور لڑ رہے ہیں۔ فی الوقت تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کوصوبائی بجٹ پاس کرانے میں کافی تگ و دو کرنا پڑے چگی۔ ارکانِ اسمبلی کو اعتماد میں لیناہوگا،ترقیاتی فنڈز بانٹنے ہوں گے، اپوزیشن تو خیبرپختونخوا میں پہلے ہی قلیل ہے انہیں صرف اپنے باغی ارکان اسمبلی کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔عاطف خان اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مابین اختلافات کا خاتمہ بھی تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں ہوسکا؛ چنانچہ عاطف خان گروپ بجٹ کی منظوری میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت اوراس کے بعدبجٹ کی منظوری کے حوالے سے بھی یہی گروپ سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ بجٹ اجلاس بلانے یا نہ بلانے کے حوالے سے پارٹی اختلافات تو اپنی جگہ گورنر اور وزیراعلیٰ بھی اس حوالے سے ایک پیج پر نہیں۔ ان دو بڑوں کے مابین ماضی قریب میں بھی لفظوں کی گولہ باری ہوتی رہی لیکن اس بار گورنر نے بجٹ اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کرنے سے ہی انکارکردیا۔گورنرکامؤقف تھا کہ اس سے قبل تمام اجلاس ریکوزیشن کے ذریعے بلائے جاتے رہے ہیں تو اس بار سمری میرے پاس کیوں بھیجی ہے۔گورنر کی جانب سے سمری پر دستخط سے انکار کے بعد وزیرقانون نے رات گئے سمری تیار کی اور اس کے بعد ریکوزیشن کے ذریعے اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث جاری ہے ساتھ ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی کوشش ہے کہ وہ اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں اور ان کی مشاورت وہدایت سے بجٹ کو منظور کیاجائے۔ اس وقت علی امین گنڈاپور کیلئے بانی پی ٹی آئی کی تائید انتہائی ضروری ہے، جس کے بغیر ان کیلئے بجٹ کی منظوری مشکل ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ پر پارٹی کے اندر سے کافی دباؤہے اورورکرزکی کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی ہے، لہٰذا اس بجٹ کی منظوری یقینا ان کیلئے ایک کڑا امتحان ثابت ہوگی۔