سوء ادب:دیوانِ غالب مرمت شدہ

قارئین کو یاد ہو گا کہ یہ سلسلہ میں نے کوئی آٹھ دس سال پہلے برادرم مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں شروع کیا تھا جس کی متعدد اقساط شائع ہوئیں اور ان پر مثبت اور منفی تبصرے بھی آئے ،تاہم بوجوہ یہ سلسلہ بند کرنا پڑا۔
اب یہ خطرہ دوبارہ مول لے رہا ہوں۔ مقصد ایک بہت بڑے شاعر کی توہین نہیں، اور میں غلط بھی ہو سکتا ہوں کیونکہ ادبی معاملات میں کوئی بات مشکل ہی سے حتمی قرار دی جا سکتی ہے ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مجھ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ بھائی شاعری تو جو تم کرنا تھی کر چکے، جسے کچھ لوگ مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے حتیٰ کہ تم خود بھی کم کم ہی مانتے ہو، اس لیے اب کچھ اور بھی کر کے دکھاؤ؛ چنانچہ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتی ہے ۔
لاڈ برنارڈ شا نے ایک بار کہا تھا کہ میں شیکسپئر سے بڑا ادیب ہوں کیونکہ میں اس کے کندھوں پر کھڑا ہوں ۔ اسی طرح غالب بھی کہہ سکتے ہیں اور شاید انہوں نے کہہ بھی رکھا ہے کہ میں میر تقی میر سے بڑا شاعر ہوں، شاید اس لیے بھی کہ وہ خود بیدل دہلوی کے کندھوں پر کھڑے ہیں ۔ مستقبل قریب میں صاحبِ موصوف سے ملاقات ہونے والی ہے، اس لیے دوبدو کے لیے بھی کچھ بچا رکھا ہے؛ چنانچہ یہ سلسلہ دیوانِ غالب کے آغاز کی بجائے آخر سے شروع کیا جا رہا ہے
پیشِ نظر غالب کا یہ قطعہ ہے
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب
اس سلسلے کی پہلی گزارش تو یہ کہ دکھ جی کے پسند ہونا محلِ نظر ہے کیونکہ جی کے پسند ہونا خلافِ محاورہ ہے ۔ جی کا پسند ہونا ہو سکتا تھا لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ دکھ جی کا پسندیدہ ہوتا۔ اس لیے جی کے پسند ہونے پر ہی گزارہ کیا جا سکتا ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے ۔ آب آئیے دوسرے مصرع کی طرف جو عیب سے پاک نہیں کیونکہ اس میں عیبِ تنافر صاف نظر آ رہا ہے۔اب آئیے قطعہ کے تیسرے مصرعے کی طرف ع
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
اس میں لفظ ’’کہ‘‘بطورِ خاص بلاوجہ ہے کیونکہ واللہ کے بعد ’’کہ‘‘کا کوئی جوازنہیں۔ میں ضرورتِ شعری کا قائل ہوں، جو کہ عام طورسے درست نہیں ہوتا اور ایک فالتو لفظ جڑ دیا جاتا ہے۔ اگر اس مصرعے کی پیرافریز بھی کی جائے تو یہی ہو گی کہ خدا کی قسم کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں حالانکہ مصرع بڑی سہولت سے اس طرح بھی ہو سکتا تھا ۔
شب کو واللہ نیند آتی ہی نہیں
اب سوال یہ ہے اگر شاعر کے ہاں کوئی مصرع پھنس جاتا ہے اور وہ رعایتِ لفظی کی سہولت لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی قاری کا مزہ بھی کرکرا کرتا ہے اور اس کے اپنے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا تو شاعر قاری کو بے مزہ اور خود کو بیزار کرنے کی بجائے مصرعے سے درگزر کیوں نہیں کر سکتا تاکہ اس کی بجائے نیا مصرع لا سکے اور اس طرح قاری کو بھی اس مصیبت سے نکالے اور خود بھی سرخرو ہونے کی کوشش کرے؟اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ شاعر میں اتنی خود اعتمادی ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اس منزل کو آسان کر سکے ۔
آج کا مقطع
میں کہ اس عہد میں منکر ہوں ظفر اپنا بھی
کس لیے محفلِ غالب میں بلایا ہے مجھے