فاطمہ حسن پیچ درپیچ اظہار کی شاعرہ

تحریر : سعید واثق


کسی سے پوچھا گیاکہ کہ فاطمہ حسن کی شاعری پر آ پ کا کیا تاثر ہے تو اس نے کہا: کپاس کا ایک پھول جس میں آگ روشن ہے

  فاطمہ حسن ۔۔۔۔۔ایک نظر   

فاطمہ حسن  24جنوری 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ان کے چارشعری مجموعے ’’بہتے     ہوئے پھول‘‘ (1977)، ’’دستک سے در کا فاصلہ‘‘ (1993)  ’’یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ (2004) ، ’’فاصلوں سے ماورا ((2019 شائع ہوچکے ہیں۔ 

کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’کہانیاں گْم ہو جاتی ہیں‘‘ (2000) میں شائع ہوا۔ان کے مطالعاتی مضامین کا مجموعہ بھی ’’کتابِ دوستاں‘‘ (2011)کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی نسائی تنقید پر تین تالیفات ’’خاموشی کی آواز‘‘ (2004) ، ’’فیمینزم اور ہم‘‘ (2005) اور ’’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘‘ (2006) میں شائع ہوئیں اور پسندیدگی کی سند حاصل کی۔ان کی انتظامی صلاحیتوں اور ادبی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں انجمن ترقی اردو پاکستان کی معتمد اعزازی کا عہدہ سپرد کیاگیا ۔ انجمن کے رسالے ’’قومی زبان‘‘ کی ادارت بھی وہ خود کر تی رہیں۔ اس کے علاوہ علمی و ادبی میدان میں ان کی متعددتخلیقی کتب ہیں ۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کی مقتدر ادبی تنظیموں نے اعزازات سے نوازا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2012میں صدارتی تمغہ امتیازبھی ملا ۔

قیام پاکستان کے بعد ترقی پسند تحریک کے ادبی رویے کے ساتھ کچھ لوگ نئے نئے تجربات بھی کر رہے تھے۔ اس متوازی صورتحال میں  کئی بہتر شاعر پیدا ہوئے، جن کے کام پر نہ تو ازکارِ رفتہ طرزِ سخن کا سایہ تھا اور نہ ہی ایک معلوم سیاسی فلسفے کے پس منظر میں لکھی جانے والی شاعری کا اُکتا دینے والا خوف۔ فاطمہ حسن اس تخلیقی جماعت میں ایک اہم نام ہے۔ بقول منیر نیازی: کوئی گہری بات فاطمہ کے جی میں ہے جس سے وہ خود بھی بے خبر ہیں۔ ان کی ساری شاعری اس بات کی تلاش اور اس تلاش کے سفر کا بیان ہے۔ اس بیان کو ہم کیا نام دیں؟ تنقید کے کس محلے میں اس کا گھر بنائیں؟ ایسا کوئی نام مجھے یاد نہیں آتا۔ شاید کوئی نیا نام ہے جو ابھی پیدا ہونا ہے کہ مروج اسالیب تنقید کے مطابق ہوتے ہوئے بھی یہ احساس رہتا ہے کہ ان کی شاعری ان بنے بنائے مکانوں میں سما نہیں رہی اور تنگی کے احساس سے گھبرا کر اپنے گردا گرد بنی دیوار سے باہر نکل کر پھیلنا چاہتی ہے۔

فاطمہ حسن نے اپنا شعری سفر 70 ء کی دہائی میں شروع کیا۔ آغاز سفر کا احساسِ تحیر اور شعری رویہ اب خاصہ پختہ ہو چلا ہے۔ وہ صرف محسوسات کی شاعرہ نہیں بلکہ پیچ در پیچ اظہار کی شاعرہ ہیں ،جو فکری پس منظر کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتا۔ شاعری اپنے آپ میں ایک ایسا تجربہ ہے جس کا اظہار نہ صرف شاعر یا شاعرہ بلکہ قارئین اور سامعین کیلئے بھی توجہ طلب ہوتا ہے۔ بسا اوقات شاعر خود اپنے تجربے کی نوعیت پر حیران ہوتا ہے۔ شعری تجربات، فنی محاسن اور فطری بہائو کے ساتھ بیان ہی وہ منزل ہے جو شاعری کو ناگزیریت کے مقام سے ہمکنار کرتا ہے۔

محمد علی صدیقی کہتے ہیں: فاطمہ حسن نے اپنے فنی سفرمیں زیادہ فنی اور شعری پختگی کے علاوہ قوتِ اظہار پر زیادہ گرفت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی ندرت جوئی اور بے ساختگی کی داد دینا پڑتی ہے کہ یہ وہ وصف ہے جس نے انہیں اپنی نسل کے گنے چنے شعرا میں شامل کر دیا ہے۔ فاطمہ حسن نے روحِ عصر اور انفرادیت پسندی کے جس خوبصورت امتزاج کا مظاہرہ کیا وہ انہی کا خاصا ہے۔

 سقوط ڈھاکہ کے بعد فاطمہ حسن جب کراچی آئیں تو پہلے پہل جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوئی میں ان میں قمر جمیل بھی تھے۔وہ کہتے ہیں کہ فاطمہ بنگال سے آرٹ اور خوبصورتی کی جو لہریں لائی تھیں وہ ان کے پہلے شعری مجموعے کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔ ان میں ہلکی ہلکی غنائیت اور رومانویت کی لہریں اس طرح نظر آتی ہیں جیسے برہم پترا کے بانی میں لڑکیوں کے چہرے نظر آتے ہیں۔ یہ شاعری ظاہر ہے محبت کے رومانوی تجربے کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی لیکن اس رومانوی محبت کا اندازہ تو آپ کو بھی فاطمہ حسن کی شاعری سے اسی طرح ہو سکتا ہے جیسے مجھے ہوا ہے۔ اپنے پہلے شعری مجموعے میں فاطمہ حسن نے لکھا تھا کہ فاصلے صرف آنکھیں ہیں یا ہونٹ۔ یہ عجیب بات فاطمہ نے لکھی ہے کیونکہ قربت کا باعث بھی آنکھیں ہوتی ہیں یا ہونٹ۔ ہماری آنکھیں ہی ہمیں اپنے محبوب سے ملاتی ہیں اور ہمارے ہونٹ ہی ہمارے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ پراسرار باتیں نہ ہوں تو سائنسی باتیں تو ہو سکتی ہیں شاعری نہیں ہو سکتی۔ زندگی کے اسی پراسرار اور حیرت ناک تجربے ہی سے رومانوی شاعری جنم لیتی ہے اور فاطمہ کی شاعری بھی۔ یعنی طائوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو تو میں ہونٹوں کا ذکر کر رہا تھا۔ میر صاحب کے یہاں ہونٹ خوبصورتی کی علامت ہیں۔ فاطمہ کے یہاں یہی محبت کے اظہار کی علامت ہیں۔  یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ فاطمہ نے خوبصورت کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ لیکن یہ کہانیاں وہ اپنے آپ کو سناتی رہتی ہے۔ 

وہ کہتی ہیں …

جانے من میں کیا آ ئی

میں نے اس سے پوچھا

بولو کیا ہے روشنی

میری آ نکھیں موند کے بولا

اب تو سب کچھ سمجھ گئی ہو

اس کہانی میں روشنی کے تعلق سے اندھیرے کی طرف بڑے شاعرانہ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ دیکھئے اس نظم میں وہ حقیقت پسندی کا انداز نہیں ہے جو ہمیں منٹو کی کہانیوں میں ملتا ہے بلکہ اس میں وہ اپنائیت ہے جو ہمیں شاعرانہ دنیا کی طرف لے کر چلی جاتی ہے۔ تضادات کا احساس انسان کے فلسفیانہ احساس کا بھی حصہ ہے اور شاعرانہ احساس کا بھی۔ مثلاً آپ نے سنا ہوگا کہ افلاطون دو متضاد حقیقتوں میں یقین رکھتا تھا۔ ایک حواس کی دنیا اور ایک عقل کی دنیا جسے خیال   کی دنیا کہا جاتا ہے اور وہ حواس کی دنیا کو تغیر اور تبدیلی کی آماجگاہ سمجھتا تھا اور خیال کی دنیا کو جوابدی اور دائم و قائم ہے اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ دراصل یہ دو خیالات کا سنگم تھا ایک تو ہیئر اکلیٹس کا خیال کہ دنیا میں ہر لمحہ تبدیلی ہو رہی ہے اور دوسرے Parmenidessکا خیال کہ دنیا ازلی و ابدی ہے اس میں تبدیلی نام کی کوئی چیز نہیں یہ ایک سکوت پذیر دنیا ہے۔ شاعری میں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کائنات اور زندگی کا تضاد، بلکہ حقیقت کے متضاد روپ علامتوں، تشبیہوں اور استعاروں میں نظر آتے ہیں۔ یہی روشنی اور اندھیرے کا تضاد جو آپ نے فاطمہ کی نظم میں دیکھا۔ اس شاعری میں محبت کی ان گنت کیفیتیں ملیں گی۔ محبت کی فضائوں میں اڑتا ہوا وژن اور محبت بھرے خیالات کو اسیر کرتی ہوئی شاعری ملے گی، پھر بازی جیتنے اور ہارنے کی باتیں بھی آپ کو فاطمہ کی شاعری میں ملیں گی۔ فاطمہ کی شاعری میں تضادات کا انکشاف ہے جو خوبصورت علامتوں اور استعاروں میں ہوا ہے۔ اور ایذراپائونڈکے الفاظ میں ایک امیج ضخیم جلدوں پر بھاری ہوتا ہے۔فاطمہ کی شاعری میں یہ امیجری بکثرت ہے۔

گہری ہوتی شام

لان کی خالی کرسیاں

اور ادھوری لڑکیاں

ادھوری لڑکیاں اور خالی کرسیاں ایسے امیج ہیں جو ضخیم جلدوں پر بھاری ہیں۔ ایسی ہی شاعری سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیجز میں معانی اتنے رچے بسے ہوتے ہیں جتنے درخت کے تازہ پھول پھلوں میں رس اور سچی فکر بھی اتنی ہی شاعرانہ ہوتی ہے جتنی خود شاعری۔ ہائیڈ غلط نہیں کہتا کہ یہ شاعری ہے جو ہستی اور وجود کو آشکار کرتی ہے؛چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ حافظ اور نظیری کے بعد یا میر و غالب کے بعد شاعری کی ضرورت نہیں رہی۔ ہر نسل شاعری میں اپنے وجود کے احساس کو اپنے لہجہ اور اپنی علامتوں میں ظاہر کرتی ہے۔ شاعری میں نہ صرف یہ کہ ہرنسل کا احساس یعنی منفرد احساس ظاہر ہوتا ہے بلکہ ہر شاعر کا اپنا منفرد احساس اس کی شاعری میں بولتا ہے۔ فاطمہ حسن بالکل مختلف مزاج کی شاعرہ ہیں۔ ان کے یہاں وہ کرافٹ نظر نہیں آتا جو آخر کار اچھے سے اچھے شاعر کو لے ڈوبتا ہے۔ کرافٹ کی شاعری میں شخصیت سے فرار تو ہوتا ہے، جذبات کی تہذیب نہیں ہوتی۔ بلکہ جذبات ہی نہیں ہوتے، صرف دماغ ہوتا ہے اور وہ بھی کسی چراغ یا خورشید کی طرح جلتا ہوا دماغ نہیں جس سے شعاعیں پھوٹ رہی ہوں بلکہ بجھا ہوا چراغ جو عروض کے طاق پر رکھا ہوا اور شاعری بال کھولے ہو رہی ہو۔

 فاطمہ نے نثری نظمیں، نظمیں ،غزلیں اور ہائیکو بھی لکھی ہیں۔ آخر انہیں ایک ساتھ کیسے رکھا گیا؟ میں اس کا جواز یہی سمجھتا ہوں کہ شاعری نثر میں بھی ہوتی ہے اور عروض اور آہنگ کی سخت پابندیوں میں بھی۔ انسانی نسل کا ابتدائی شعور اجتماعی شعور تھا، یہی شعور اجتماعی تھا جو کسی ممکنہ خوشی یا ممکنہ خوف کی صورت میں اجتماعی روپ میں ظاہر ہوا تو رقص موسیقی اور شاعری نے ایک ساتھ ظہور کیا۔ اجتماعی زندگی کا جمالیاتی اظہار یہی ہو سکتا تھا اور یہی ہوا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اجتماعی زندگی کروٹیں لیتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ہمارا جدید عہد، صنعتی دور آ گیا۔ یہ انفرادیت، جمہوریت اور فرد کی اہمیت کا دور، اسی نے ہمیں اجتماعی آہنگ سے نکال کر انفرادی آہنگ، اجتماعی زندگی سے نکال کر پرائیویٹ زندگی تک پہنچا دیا ہے، لیکن شاعر کا انفرادی وجود ابھی اپنے اجتماعی وجود سے پوری طرح ٹوٹا نہیں ہے۔ ابھی پابند نظمیں بھی لکھی جا رہی ہیں، غزلیں بھی لیکن نثری نظموں کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ یہ ہمارے اظہار کا اہم ذریعہ ہے۔ ہماری انفرادیت کے اظہار کا ذریعہ۔ خیر! فاطمہ نے تو غزلوں اور پابند نظموں کے اجتماعی آرٹ میں بھی اپنی انفرادیت کا اظہار کیا ہے۔ان کا اپنا لہجہ ہے، اپنی امیجز ہیں اور اپنی معصومیت۔ کسی سے پوچھا گیاکہ کہ فاطمہ حسن کی شاعری پر آ پ کا کیا تاثر ہے تو اس نے کہا: کپاس کا ایک پھول جس میں آگ روشن ہے۔

غزل

بکھر رہے تھے ہر اک سمت کائنات کے رنگ

مگر یہ آنکھ کہ جو ڈھونڈتی تھی ذات کے رنگ

ہمارے شہر میں کچھ لوگ ایسے رہتے ہیں

سفر کی سمت بتاتے ہیں جن کو رات کے رنگ

الجھ کے رہ گئے چہرے مری نگاہوں میں

کچھ اتنی تیزی سے بدلے تھے ان کی بات کے رنگ

بس ایک بار انہیں کھیلنے کا موقع دو

خود ان کی چال بتا دے گی سارے مات کے رنگ

ہوا چلے گی تو خوشبو مری بھی پھیلے گی

میں چھوڑ آئی ہوں پیڑوں پہ اپنے ہاتھ کے رنگ

 

منتخب اشعار

دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو

جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

………

سنگت ملی کسی کی نہ تنہائیاں ملیں

چلتی رہیں جو ساتھ وہ پرچھائیاں ملیں

………

باہر کے منظروں میں تو دیکھی تھیں پر مجھے

خود اپنی ذات میں بھی کئی کھائیاں ملیں

………

جاتا ہے جو گھروں کو وہ رستہ بدل دیا

آندھی نے میرے شہر کا نقشہ بدل دیا

………

سکونِ دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا

وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا

………

مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے

بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

 

غزل

پھر یوں ہوا کہ زندگی میری نہیں رہی

اس کی نہیں رہی تو کسی کی نہیں رہی

وہ ہم سفر تھا کشتی پہ مانجھی بھی تھا وہی

دریا وہی ہے میں بھی ہوں کشتی نہیں رہی

بدلا جو اس کا لہجہ تو سب کچھ بدل گیا

چاہت میں ڈھل کے جیسی تھی ویسی نہیں رہی

پیڑوں میں چھاؤں پھول میں خوشبو ہے اپنا رنگ

ویرانی بڑھ گئی ہے کہ بستی نہیں رہی

کچے مکان جیسے گھروندے سے کھیلتی

پختہ ہوا جو صحن تو مٹی نہیں رہی

اک اعتراف عشق تھا جو کر نہیں سکی

خاموش اس لیے ہوں کہ سچی نہیں رہی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

گرین شرٹس کا دورہ بنگلہ دیش

گرین شرٹس ،بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں پر مشتمل سیریز کھیلنے کیلئے 16جولائی کو ڈھاکہ جائے گی۔ یہ ٹی 20 سیریزایشیا کپ 2025ء اورٹی 20 ورلڈ کپ 2026ء سے قبل دونوں ٹیموں کی تیاری کے طور پرانتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

انڈر18 ہاکی ایشیا کپ قومی کھیل:شاہینوں کی بڑی اڑان

طویل عرصہ بعدپاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے بین الاقوامی میدانوں سے گرین شرٹس کی اچھی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں۔ ایف آئی ایچ نیشنز کپ کے بعد پاکستان انڈر18 ہاکی ایشیا کپ کے فائنل میں بھی پہنچ گیا۔

عظیم شاہسوار (آخری قسط)

معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ آپ کے مطیع و فرمانبردار ہوتے گئے۔ پورے جزیرہ عرب خاص طور پر اہل حجاز نے آپ کی بیعت کرکے خلافت کو تسلیم کر لیا۔

راجہ رانی کی زندگی!

راجہ رانی ایک قدیمی محل نما مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی حفاظت کیلئے تین سکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے تھے، جو ہر وقت چاک و چوبند رہتے۔ انہیں کھانا، چائے، دیگر ضروریات زندگی کی سہولتیں دی گئی تھیں۔ تنخواہ مناسب اور وقت پر دی جاتی تھی۔ وہ بھی راجہ اور رانی کے حسن سلوک سے بہت خوش تھے۔

کیا آپ جانتے ہیں؟

شہاب ثاقب کسے کہتے ہیں؟ زمین پر جلتی ہوئی چٹانوں کے گرتے ہوئے ٹکڑوں کو شہاب ثاقب کہتے ہیں۔ یہ بیرونی خلا میں تیرتے ہوئے مادوں سے بنتے ہیں جو زمین کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔

ذرا مسکرائیے

استاد شاگرد سے: ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آنے والے ہیں، وہ جو بھی پوچھیں فرفر جواب دینا۔