بلوچستان بجٹ کثرت رائے سے منظور
بلوچستان اسمبلی نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔بدھ کو وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایوان میں بجٹ بحث سمیٹے ہوئے کہا کہ رواں سال 100 فیصد بجٹ استعمال ہواہے، وعدہ کرتاہوں نئے مالی سال میں بھی 100 فیصد پی ایس ڈی پی پر کام کریں گے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمارے اہداف گڈ گورننس اور امن وامان ہیں،اپنی فورسز کو جدید سہولیات فراہم کریں گے، امن وامان کو بحال کرنے کیلئے بہترین فورس سی ٹی ڈی ہے جس کو مزید مستحکم کریں گے، تھانوں کو ازسرنو تعمیر کریں گے، پراسیکیوشن کو بہتر بنائیں گے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی ہوسکے۔ وزیر اعلیٰ بلو چستان نے کہاکہ بلوچستان میں کلچر کودوارب روپے کی لاگت سے پروموٹ کرنے جارہے ہیں، اس سال واشک پر بھی بھرپور توجہ دیں گے، ہرنائی میں دوبڑی شاہراہوں پر دو ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، لورالائی میں چار ارب واٹر سپلائی کیلئے رکھے گئے ہیں، زیارت کیلئے کیڈٹ کالج کی تعمیر کو مکمل کیا ئے گا،سویلین شہداکو15سے بڑھاکر 25 لاکھ روپے دیں گے اور ملازمین کے معاوضہ کو بڑھائیں گے۔ صوبائی اسمبلی میں حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام علاقوں کو یکساں ترجیح دی گئی ہے جبکہ اپوزیشن ارکان کا شکوہ تھاکہ ان کے حلقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ بجٹ اجلاس میں وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے 81ارب 53کروڑ 21لاکھ 52ہزار 267 روپے کے ضمنی مطالبات زر ایک‘ ایک کر کے رائے شماری کیلئے ایوان میں پیش کئے۔ ایوان نے رواں مالی سال کے ترقیاتی اخراجات کے 40ارب 67 کروڑ 31لاکھ 61ہزار روپے کے 19جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 40ارب 85کروڑ 89 لاکھ 9ہزار267 کے 19مطالبات زر مظور کرلئے۔ اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت جوڑنے کی اور وفاق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ کرپشن ہے، صوبے میں کرپشن ختم ہونی چاہیے اور مسائل حل ہونے چاہئیں ۔ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پسماندہ صوبہ ہے جس کیلئے مالی سال2025-26 ء کیلئے بہترین بجٹ بنایا گیا ہے۔مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ حکومت یا اپوزیشن کی تفریق کے بغیر بلوچستان کے نمائندہ ایوان کی سفارشات پر صوبے کی تعمیر و ترقی کو ترجیح دی گئی ہے اور کئی حلقوں میں اپوزیشن کو حکومتی ارکان سے زیادہ فنڈز ملے ہیں۔جمعیت علماء اسلام کی رکن شاہدہ رؤف نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے، پورا بجٹ اگر فورسز کو دے دیاجائے تو بھی کسی کو اعتراض نہیں ہوگا بشرطیکہ امن قائم ہو۔انہوں نے سوال کیا کہ حکومتی رِٹ کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ان کا کہنا تھا کہ امن وامان کیلئے دیر پا حل کی طرف جانا ہوگا۔صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور بلید ی نے کہا کہ بجٹ ٹیکس اداکرنے والوں کا پیسہ ہے، حکومت اسے استعمال کرتی ہے، حکومت ٹیکس کے پیسے سے عوامی مفاد کیلئے منصوبہ بندی کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ چاغی میں انڈسٹری بننے جارہی ہے،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشک میں بننے والے ڈیم کا پانی ریکوڈک کو بیچاجائے گا۔
ادھرسرکاری ملازمین کے گرینڈ الائنس کی جانب اپنے مطالبات کیلئے احتجاج جاری ہے۔ گزشتہ دنوں جی پی او چوک کے قریب ملازمین نے احتجاجی ریلی نکالی اور صوبائی اسمبلی کے سامنے جاکر دھرنا دینے کی کوشش کی مگر انتظامیہ نے ملازمین کو روکنے کیلئے اسمبلی کی جانب جانے والے راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا۔ اس دوران جی پی او چوک پرپو لیس نے احتجاج کرنے والے ملازمین کو روکنے کی کوشش کی۔ سرکاری ملازمین کے احتجاج اور پولیس کی شیلنگ سے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا۔پولیس نے احتجاج کرنے والے 10سے زائد ملاز مین کو حراست میں لیا جبکہ پولیس کی جانب سے احتجاجی ریلی کی کوریج کرنے والے میڈیا کے نمائندوں پر بھی تشدد کیا گیا جس سے کم از کم تین نمائندگان زخمی ہو گئے۔ واقعہ کے بعد احتجاجی ملازمین منتشرہونے کے بعد منان چوک پر اکٹھے ہوگئے جس پر پولیس نے ایک بار پھر شیلنگ کی۔ رات گئے تک اسمبلی کی جانب جانے والے راستوں کو کنٹینر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند رکھا گیا جبکہ ملازمین جناح روڈ اورشاہراہ ٔاقبال سمیت ملحقہ سڑکوں پر موجود رہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین احتجاج کے ذریعے اسمبلی کا اجلاس روکنا چاہتے تھے ۔حکومت کے پاس ہجوم کو کنڑول کرنے کیلئے لاٹھی چارج کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی ڈیمانڈز سے صوبے کے بجٹ پر 40 ارب روپے کا بوجھ پڑ رہا ہے جو اس بجٹ میں دینا ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ ملازمین سے مذاکرت کیلئے تیار ہیں، مہنگا ئی اور بے روزگاری ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا غیر ترقیاتی بجٹ تیزی سے اوپر جارہا ہے اور ترقیاتی بجٹ پر ہمیشہ کٹ لگتا ہے، ہم اپنا 80فیصد بجٹ دو فیصد ملازمین کو دے رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ صوبائی وزرا کو ملازمین کے پاس مذاکرت کیلئے بھجوایا تھا مگر ملازمین بضد تھے کہ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے نہیں دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کو ایک بار پھر پیشکش کرتاہوں کہ ان کے جائز مطالبات پورے کرنے کو تیار ہیں، جو مطالبات ہمارے بس سے باہر ہیں انہیں کوئی احتجاج سے منظور کروانا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں۔ تاہم نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ملازمین پر لاٹھی چارج کی مذمت کر تے ہوئے کہاکہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ان کے بغیر سیکرٹریٹ اور دفاتر نہیں چلیں گے، ملازمین سے مذاکرت کئے جائیں۔بلوچستان گرینڈ الائنس نے ملازمین پر تشدد کے خلاف بلوچستان بھر میں غیر معینہ مدت تک دفاتر ‘ سرکاری اداروں سرکاری سکولوں کی تالہ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ کے اہم چوراہوں پر دھرنے دیئے جائیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت نے ملازمین کے مطالبات تسلیم نہ کئے تو احتجاج میں مزید سختی لائی جائے گی ۔
ادھررواں ہفتہ کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس پر لوکل مسافر بس اور کیمیکل اور سپرٹ سے لدھے رکشے میں تصادم کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی جس کے باعث مسافر بس میں سوارچھ مسافرجاں بحق جبکہ سات زخمی ہوگئے ۔واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موقع پر پہنچ گئیں اور آگ پر قابو پایا،نعشوں اورزخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق سپرٹ سے لدا ایک رکشہ نواکلی سے ہزار گنجی جانے والی مسافر بس سے ٹکرا گیا جس سے دونوں گاڑیاں شعلوں کی لپیٹ میں آ گئیں۔