امام عدل وحریت، پیکر شجاعت وبہادری
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کے یوم شہادت کے حوالے سے خصوصی تحریر آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے، راتوں کو گشت کرتے اور سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل وحالات پوچھتے
امام عدل وحریت، مرادِ مصطفی، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کیلئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے،آپؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات وترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوش حال ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کیلئے مستحق زکوٰۃ کو تلاش کرتے تھے لیکن ان کو زکوٰۃ لینے والامشکل سے ملتا تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضورﷺ نے بارگاہ خداوندی میں جھولی پھیلا کر مانگا تھا، اسی وجہ سے آپؓ کو ’’مرادِ مصطفیﷺ‘‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو دنیا میں ہی حضورﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں۔آپؓ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویﷺ موجود ہیں اور آپؓ کی صاحبزادی اُم المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا کو حضورﷺ کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں اُم المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت وبہادری کے خوب جوہر دکھائے۔بدر کے قیدیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپﷺ کی رائے اور مشورہ کی تائید میں آیت قرآنی نازل ہو گئی۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم قد مبارک دراز تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں۔ آپؓ زبردست بہادر اور بڑے طاقتور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی شدت اسلام میں بھی ہوئی۔ آپؓ خاندان قریش کے باوجاہت اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے، زمانہ جاہلیت میں سفارت کاکام آپؓ ہی کے سپرد تھا۔
آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہو ر ومعروف ہے اور آپؓ کا اسلام لانا حضورﷺ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑ گیا۔ آپؓ کے اسلام لانے سے حضورﷺ نے بیت اللہ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔
سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اللہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ہجرت کر کے مدینہ جا رہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی۔ جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔
آپؓ نے خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبہ کیلئے بہت کام کیا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کیلئے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کیلئے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ اختیار کیا۔صحابہ کرامؓ کی اعلیٰ مشاورتی کونسل اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی جانشینی کا اعلان کیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرامؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓکا مزاج سخت ہے اگر وہ سختی پر قابو نہ پا سکے تو بڑا سانحہ ہو گا۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمہ داری عائد ہو گی تو یقینا جلال و جمال کا امتزاج قائم ہو جائے گا۔
خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں تو فرمایا! میرے لئے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔
آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جوآپؓ کی ضرورت کیلئے بہت کم تھا۔ کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے لیتے وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے۔ جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کئے۔
آپؓ میں خشیت اور خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں آیت قیامت و آخرت کے ذکر پر بیہوش ہو جاتے۔ زکوٰۃ و صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ آخر عمر میں ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کیلئے راتوں کو اٹھ اٹھ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال کرتے، بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ جب کسی صوبہ یا علاقہ میں کسی کو گورنر وغیرہ مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقررکرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ رعایا کو حکم تھاکہ میرے حکام (گورنرز) سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف وخطر مجھے اطلاع دیں۔ آپ ؓ اپنے حکام کی ذرا ذرا سی بات پر گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک پروانہ لکھ کر دیتے جس پر یہ ہدایات درج ہوتیں! باریک کپڑا نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھناتاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بے روک ٹوک آجاسکے ،بیماروں کی عیادت کو جانا، جنازوں میں شرکت کرنا۔
حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال کرتے اور ان کی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقع پر احکامات جاری کرتے، راتوں کو گشت کرتے اور سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل وحالات پوچھتے، دور دراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل وغیرہ سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کر کے لوگوں کے مسائل وشکایات کو دور کرتے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو فتح کرنے اورقیصر وکسریٰ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خرسان اور مکران (جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آجاتا ہے) سمیت دیگر کئی علاقے فتح کئے۔
آپؓ کے دورِ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال یعنی خزانہ کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے۔ جیل خانہ اور پولیس کا محکمہ بھی آپؓ نے ہی قائم کیا۔ تاریخ سن قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔ دفترمال قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے۔ ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔راتوں کو گشت کر کے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ پرچہ نویس مقرر کئے، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کیلئے مکانات تعمیر کروائے، مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے، مکاتب و مدارس قائم کئے، معلمین واساتذہ کے مشاہرے مقرر کئے۔نماز تروایح جماعت سے قائم کی،شراب کی حد کیلئے 80 کوڑے مقرر کیے۔مساجد کے اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ اس کے علاوہ بھی عوام کیلئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات آپؓ نے جاری کئے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ’’الفاروق ؓ‘‘' میں رقمطراز ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیض میں دس دس پیوند لگے ہوں، کاندھے پرمشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو۔ جہان جاتا ہو تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم وخدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے سفر شام میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23ھ کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کیلئے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کروائی، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ابو لولو فیروز مجوسی جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لئے مسجد کے محراب میں چھپا ہوا تھا نے خنجر کے تین وار آپؓ کے پیٹ پر کئے جس سے آپؓ کو کافی گہرے زخم آئے۔ آپؓ بے ہوش ہو کر گر گئے، اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ بھی زخمی ہوئے۔ قاتل نے پکڑے جانے کے خوف سے خودکشی کر لی۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم درست نہ ہوئے اور پانچویں روزیکم محرم الحرام کو دس سال چھ ماہ اور دس دن تک 22لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہ کو جاری کرنے کے بعد آپؓ نے 63 برس کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔ حضرت صہیبؓ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور روضہ نبویﷺ میں خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔
سیدنا فاروق اعظم ؓکی شان میں احادیث نبوی ؐ
آپؓ کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا‘‘ (جامع ترمذی)۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہو جانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت ’’نصرت الٰہی‘‘ تھی اور ان کی خلافت اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمرابن خطاب قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب تم کو شیطان کسی راستہ پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کو اختیار کر لیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو جاری و قائم کر دیا ہے۔ (ترمذی)
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپﷺ کے ہمراہ دائیں بائیں ابو بکر ؓوعمرؓ بھی تھے اور آپﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیل ؑاور میکائل ؑ ہیں اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابو بکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)